AhnafMedia

مسئلہ قربانی

Rate this item
(4 votes)

مسئلہ قربانی

مولانا مقصود احمد

اللہ رب العزت نے مسلمانوں کو اپنا قرب اور اجر عطاء کرنے کے لئے عبادات مقرر کیں مسلمان ان عبادات کو کرنے کے پابند اور مکلف بنائے گئے ہیں یہی اللہ رب العزت کی اطاعت اور انسان کی عبدیت ہے مگر طریقہ ء عبادت کو اللہ رب العزت نے کسی جگہ یا وقت کے ساتھ مقرر ومتعین کیا ہے مثلا نماز ،روزہ ،زکوٰۃ ،اور قربانی وغیرہ یہ وقت کے ساتھ اور حج وعمرہ اور ان کے ارکان کی ادائیگی وقت مقررہ کے علاوہ جگہ کے ساتھ بھی خاص ہے ۔وقت اور جگہ عبادات کی ادائیگی میں جسم میں روح کی طرح حیثیت رکھتے ہیں ۔جس طرح جسم بغیر روح کے ناکارہ ،بعینہعبادات وقت مقررہ کے علاوہ بے فائدہ اور اجر وثواب سے خالی ہیںبلکہ بعض کا تو فوراً تدارک بھی نہیں ہو سکتا۔دوسری طرف اگر کارخانہء کائنات کی تبدیلیوں میں غور کی جائے تو یہ تمام تغیر وتبدل اس قادر مطلق کی قدرت کا کرشمہ ہونے کے ساتھ حسن کائنات بھی ہیں ۔نظام دنیوی کے تغیر کی طرح نظام عبادت کی تبدیلیاں بھی یہی نقطہ اپنے اندر مضمر رکھتی ہیں ،شاید اسی اختلاف ِنظام ِکائنات وعبادات کو مدنظر رکھ کر معروف ادیب وشاعر ’’علامہ ذوق ‘‘ نے کیا خوب منظر وتصویر کشی کی ہے ۔

گلہائے رنگا رنگ سے ہے زینت چمن

اے ذوق اس جہان کو زیب ہے اختلاف سے

اس عملی اور کائناتی تبدیلیوں میں عقل انسانی شرع کے تابع اور حکم خدا کے آگے رضا بالقضاء (اللہ کے ہر فیصلہ پر راضی ہونا)کا مزاج رکھتا دکھائی دیتاہے، اسی وجہ سے موسم بہار دیکھنے کے بعد خزاں رسیدہ پتے اور پودے دیکھ کر سراپا احتجاج نہیں ہوتا ۔تو دوسری طرف تبدیلی عبادت مثلا اچھے و نئے خوبصورت معطر کپڑوں میں نماز عید ادا کرنے کے بعد قربانی کرنے کی وجہ سے اپنے کپڑوںاور بدن کے خراب اور ناپاک ہونے کی پرواہ کیے بغیر بلا جنبش زبان اجر وثواب کی امید رکھتے کام کرتا دکھائی دیتاہے مگر ہر عبادت کا ثواب اصول شرعیہ اور طریقہء نبویہ کے مطابق کام کرنے پر ملتا ہے ورنہ اس بارگاہ ایزدی میں بیت اللہ کی تعمیر ،حاجیوں کی خدمت ،بیت اللہ کی مجاورت اور حلف الفضول جیسے عہدوپیماں بھی بغیر ایمان کے مردود اور ہبائً منثورا ہیں ۔اب اس مقدمہ پر ایک مسئلہ قربانی کی بنیاد وتعمیر یوں قائم کی جاسکتی ہے کہ ’’قربانی‘‘جملہ عبادات میں سے ایک اہم اور ضروری عبادت ہے جو حضرت ابراہیم علیہ السلام کی سنت اور ہمارے نبی اقدس ﷺ کا طریقہ ومعمول بھی ہے جس کے کرنے والے کے فضائل، قربانی کے اجر اور نہ کرنے والوں (اہل ثروت وطاقت یعنی صاحب نصاب )کے لئے وعیدات، نبی رحمۃ للعالمین ﷺکی زبان مبارک سے۔ جو آدمی قربانی کرنے کی طاقت کے باوجود قربانی نہ کرے تو اسکو ہماری عید گاہ میں آنے کا کوئی حق و اجازت نہیں

تمام اہل السنۃ والجماعۃ کے نزدیک قربانی کے جانور کی کم از کم عمر متعین ہے ۔جس کا لحاظ اتنا ہی ضروری ہے جس طرح نماز ،روزہ کے لئے وقت ۔اگر جانور کی عمر پوری نہیں تو قربانی درست نہ ہو گی ،اسی کا ثبوت اور اشارہ حدیث جابرؓ کے اندر بھی موجود ہے کہ حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ تم عمر رسیدہ جانور کی قربانی کرو الاّ یہ کہ ملنا مشکل ہوجائے۔

معزز قارئین کرام: اس حدیث مبارک میں عمر رسیدہ جانور کے ذبح کرنے کا حکم ہے تو اب اس حدیث میں عمر رسیدہ جانور کے مصداق ومفہوم میں محدثین نے کیا فرمایا اور اہل لغت نے ’’مسنہ ‘‘کا معنی اور تعریف کیا بیان کی، بڑے ہی اختصار کے ساتھ پیش خدمت ہے۔

المسن کا معنی اہل لغت نے عمررسیدہ (القاموس الوحید ص۸۱۲)بوڑھا جانور(المنجد ص۴۹۴) سے کیا ہے ۔اور محدثین اس کی تشریح میں یوں رقم طراز ہیں کہ مسنۃ ہر جانور میں سے ثنی کو کہتے ہیں اور ثنی کہتے ہیں وہ اونٹ جو پانچ سال کا ہو،گائے بھینس میں جو دوسال کی ہو اور بکری بھیڑ جو سا ل کی ہو ۔

نوٹ: بھیڑ کا ۶ ماہ کا بچہ جو اپنے فربہ اور جسامت میں سال والے کے برابر معلوم ہو اس کی قربانی درست ہے۔

محدثین کے علاوہ حضرات فقہاء عظام جو بقول امام ترمذی حدیث کے معنی ومطلب کو سب سے زیادہ جانتے اور سمجھتے ہیں (ترمذی ج۱ ص ۱۹۳)نے بھی اپنے کتب فتاویٰ کے اندر مندرجہ بالاہی معنی کیا ہے اور قربانی کے جانور کی مذکورہ عمر ہی بیان کی کہ اونٹ کی کم از کم عمر پانچ سال ،گائے بھینس کی عمر دوسال ،بکری کی عمر ایک سال ہو۔

اہل لغت ،محدثین اور فقہاء کرام کی شہادت کے ساتھ ساتھ خود معترضین منکرین کے گھر سے بھی چند حوالہ جات ملاحظہ فرمائیں:

شاید کہ اتر جائے تیرے دل میں میری بات

ہو سکتاہے کسی طالب صادق اور گم گشتہ راہ کے لئے یہ حوالہ جات ضیا پاشی کرتے ہوئے صراط مستقیم تک پہنچا دیں بشرطیکہ تعصب مذہبی اور ہٹ دھرمی سے کام نہ لیا جائے ۔

اوریہی بیان کردہ معنی ہی مسنہ کا شرعی معنی کہ یہ مسنہ سنۃ بمعنی سال سے ماخوذ ہے جس سے معلوم ہوا کہ جانور میں عمر کا اعتبار ہے دانت ٹوٹنے نہ ٹوٹنے کا کوئی اعتبار نہیں ۔ہاں !بسا اوقات عمر کی پہچان دانتوں کے کم زیادہ، ٹوٹنے سے ہوتی ہے لیکن یہ قربانی کا مدار نہیں جس طرح مونچھ ،داڑھی کا آنا علامت مردانگی اور بالوں کا وقت پر سفید ہونا بڑھاپے کی دلیل ہے لیکن جس آدمی کی قدرتی طور پر داڑھی ،مونچھیں آئیں ہی نا تو کیا اس کو مرد یا بوڑھا نہ کہا جائے گا ؟ کیوں نہیں ! اگرچہ علامت ظاہر نہیں ہوئی تو اسی طرح قربانی کے جانور کے دانتوں کا مسئلہ ہے۔اگر بقول غیرمقلدین ’’دوندا‘‘ (یعنی دودانت ٹوٹا ہوا) شرط ہے تو پھر جس جانور کے دانت ٹوٹیں ہی نہ؟یا بجائے دو کے تین ٹوٹ جائیں یا چار ( چوگا)یا دانت شروع سے نکلیں ہی نہ؟یا حادثاتی طور پر پہلے ٹوٹ جائیںیا صرف ایک ہی دانت ٹوٹے تو اس جانور کی قربانی شرعی نقطہ نظر سے جائز ہے یا نہیں ؟صرف اپنے اصول کی روشنی میں جواب دے کر مطمئن کریں یا پھر ہمارے موقف کو اپنے مذکورہ بڑوں کی طرح آپ بھی تسلیم کریں۔

اپنے من میں ڈوب کر پا جا سراغ زندگی تواگر میرا نہیں بنتا نہ بن اپنا تو بن

مزید یہ کہ حدیث مبارک میں مسنۃ کے ذبح کرنے کا حکم آیا ہے۔اہل علم جانتے ہیں کہ یہ مونث کا صیغہ ہے تو کیانبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مونث( مادہ) جانوروں کی قربانی کا حکم دیا تو کیا اب صرف مادہ جانوروں کی قربانی جائز ہے ؟ مذکر جانوروں کی قربانی پر کیا دلیل ہے ؟ لہٰذا اہل السنت والجماعت کے متفقہ موقف کو تسلیم کرتے ہوئے جانور میں عمر کا اعتبار کیا جائے گاتاکہ یہ مندرجہ بالا خرابیاں پیدا نہ ہوں اور شریعت مطہرہ پر عمل ہو جائے۔(اللہ توفیق عمل نصیب فرمائے۔آمین بجاہ النبی الکریم )

Read 3955 times

DARULIFTA

Visit: DARUL IFTA

Islahun Nisa

Visit: Islahun Nisa

Latest Items

Contact us

Markaz Ahlus Sunnah Wal Jama'h, 87 SB, Lahore Road, Sargodha.

  • Cell: +(92) 
You are here: Home Islamic Articles (Urdu) مسئلہ قربانی

By: Cogent Devs - A Design & Development Company