AhnafMedia

علی زئی غیر مقلد کا مجذوبانہ واویلا

Rate this item
(8 votes)

علی زئی غیر مقلد کا مجذوبانہ واویلا

مفتی شبیر احمد

اللہ تعالی نے ہر انسان میں کچھ نہ کچھ صلاحیتیں رکھی ہیں۔ اب کوئی آدمی ان صلاحیتوں کو صحیح استعمال کر کے اللہ کے انعامات کا مستحق بن جاتا ہے، مخلوق خدا کی ہدایت کا ذریعہ بنتا ہے اور کوئی ان صلاحیتوں کو غلط استعمال کر کے خود بھی گمراہ ہوتا ہے اور دوسروں کو بھی گمراہ کرتا ہے اور فضلوا واضلوا کا مصداق بنتا ہے۔

اس زمانہ میں کچھ جاہل قسم کے لوگ ایسے ہیں جو جھوٹ بول کر محققین میں اپنا نام شمار کرانا چاہتے ہیں۔اس کی ایک مثال ماہنامہ’’ الحدیث‘‘ کا مدیر زبیر علی زئی ہے جس نے اپنے ماہنامہ کے شمارہ 89ص: 40پر ایک عنوان ’’ ایک جھوٹی روایت اور الیاس گھمن کا قافلہ‘‘ قائم کیا اورچند صفحات سیاہ کر کے اپنی علمیت منوانے کی ناکام کوشش کی ہے ۔ہم اس مضمون میں علی زئی کی جہالت کوآپ کے سامنے لانا چاہتے ہیں۔

متکلم اسلام حضرت مولانا محمد الیاس گھمن حفظہ اللہ نے قافلہ حق ج:5ش:3کے اداریے میں’’امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ اور اعتراضات کا جائزہ‘‘ کے عنوان سے ایک علمی و تحقیقی مضمون تحریر فرمایا جس میں امام اعظم ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے فضائل و مناقب کے ساتھ ساتھ مخالفین کی طرف سے وارد ہونے والے اعتراضات کے شافی و وافی جواب دئیے ۔امام صاحب کے علمی مقام و مرتبہ کو بیان کرتے ہوئے امام موفق بن احمد المکی رحمہ اللہ کی سند سے ایک روایت نقل کی جس میں امام صاحب کی عظیم منقبت ثابت ہو رہی تھی لیکن فقہاء سے بغض کے حامل زبیر علی زئی کو اپنی ’’فطری عادت‘‘ کے پیش نظر یہ بات بالکل نہ بھائی تو ایڑی چوٹی کا زور لگا کر اسے ضعیف بلکہ موضوع و من گھڑت ثابت کرنے کی ناکام کوشش کی۔

علی زئی مماتی غیر مقلد نے ابتدا میں روایت کے صحیح ہونے کے لئے سند میں پانچ شرائط ذکر کی ہیںاور بزعم خود یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ شیخ گھمن حفظہ اللہ کی پیش کردہ روایت میں یہ شرائط نہیں لہٰذا روایت موضوع ہے ۔

ہم زبیر علی زئی غیر مقلد سے پوچھتے ہیں کہ کیا کسی روایت کے صحیح ہونے کے لئے صرف سند کی صحت کو دیکھا جائے گا یا دیگر قرائن سے بھی روایت صحیح ثابت ہوتی ہے؟کاش! علی زئی غیر مقلد یہ جملہ ’’اہل سنت اصول حدیث اور اہل سنت اسماء الرجال کی رو سے ‘‘ لکھتے وقت اہل سنت کے اصول حدیث کو دیکھ لیتا تو روایت کو موضوع و من گھڑت ثابت کرنے کی کوشش سے باز رہتا ۔لیکن کیا کریں جس طرح ساون کے اندھے کو سبزہ ہی نظر آتا ہے بالکل اسی طرح بغض فقہا ء میں اندھے زبیر علی زئی کو بھی امام ابوحنیفہ رحمتہ اللہ علیہ کے فضائل و مناقب کی روایات سقیم و ضعیف نظر آتی ہیں۔

ؒ لیجئے ! ہم فقہا ء و محدثین کی تصریحات ذکر کرتے ہیں کہ جنہوں نے روایت کی صحت کے لئے سند کی صحت کے علاوہ دیگر اصول بھی ذکر کئے ہیں جن سے روایت صحیح ثابت ہوتی ہے،لیکن نام نہاد ’’محقق‘‘ زبیر علی زئی کی ’’علمی دیانت‘‘ نے اسے ذکر کرنا گوارا نہ کیا۔

اصل نمبر 1: روایت کے صحیح و ثابت ہونے کے لئے صرف سند کا صحیح ہونا ضروری نہیں بلکہ اگر روایت سنداً ضعیف بھی ہو مگر تلقی امت بالقبول ہو جائے تو وہ صحیح ہو جاتی ہے۔ائمہ نے اس بات کی تصریح کی ہے۔

1۔ امام جلال الدین سیوطی رحمہ اللہ فرماتے ہیں ’’قال بعضھم یحکم للحدیث بالصحۃ اذا تلقاہ الناس بالقبول وان لم یکن لہ اسناد صحیح ۔

ترجمہ: بعض محدثین کا فرمان ہے کہ جب لوگ کسی روایت کو قبول کر لیں تواس کی صحت کا حکم لگا دیا جاتا ہے اگرچہ اس کی سند ضعیف ہی کیوں نہ ہو۔

2۔قال ابن عبدالبر فی الاستذکار لماحکی عن الترمذی ان البخاری صحح حدیث البحرھوالطہور ماؤہ واھل الحدیث لایصححون مثل اسنادہ لکن الحدیث عندی صحیح لان العلماء تلقوہ بالقبول‘‘

ترجمہ: امام ابن عبد البر، امام ترمذی سے نقل کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ امام بخاری نے حدیث البحرہوالطھور ماؤہ کو صحیح قرار دیا ہے اور دوسرے محدثین اس طرح کی سند کو ضعیف کہتے ہیں لیکن میرے نزدیک یہ حدیث صحیح ہے اور صحیح ہونے کی وجہ علما ء کا اس کو قبول کر نا ہے ۔

علی زئی ’’صاحب‘‘ ! امام بخاری ،امام ترمذی، امام جلال الدین سیوطی رحمہم اللہ سند کے ضعف کے باوجود تلقی بالقبول کی وجہ سے حدیث کو صحیح قرار دے رہے ہیں ان کے بارے میں بھی کوئی ’’فتوی‘‘صادر فرمائیں، انہیں بھی محدثین اہل سنت سے خارج کریں۔

جھوٹ بولا ہے زبیر تو اس پر قائم بھی رہو

آدمی کو ’’صاحب کردار‘‘ ہونا چاہیے

واہ علی زئی تیری تحقیق!

اصل نمبر 2: کسی روایت سے محدث یا فقیہ کا استدلال کرنا اس روایت کی صحت کی دلیل ہوتی ہے۔

۱۔علامہ ابن الہمام رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں ،

’’المجتہد اذا استدل بحدیث کان تصحیحاً لہ۔‘‘

ترجمہ: مجتہد جب حدیث سے استدلال کرے تو یہ اس حدیث کی صحت کی دلیل ہے۔

۲۔ علامہ ابن حجر عسقلانی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں،

’’وقد احتج بھذا الحدیث احمد وابن المنذر وفی جذمہما بذالک دلیل علی صحتہ عندہما۔‘‘

ترجمہ: اس حدیث [جس پر امام بیہقی رحمتہ اللہ علیہ نے کلام کیا ہے ] سے امام احمد اور امام ابن المنذر رحمہما اللہ نے احتجاج کیا ہے اور ان دونوں کا اس حدیث سے احتجاج پر جذم کرنا ان کے نزدیک حدیث صحیح ہونے کی دلیل ہے۔

۳۔ محدث و فقیہ علامہ ظفر احمد عثمانی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں ،

’’وکذا فی جز م کل مجتہد بحدیث دلیل علی صحتہ عندہٗ‘‘

ترجمہ: ’’ اسی طرح ہر مجتہد کا حدیث سے استدلال کرنا دلیل ہے کہ حدیث اس کے نزدیک صحیح ہے۔‘‘

علی زئی ’’صاحب‘‘ !علامہ ابن الہمام ، حافظ ابن حجر اور علامہ ظفر احمد عثمانی رحمہم اللہ کی تصریحات پر غور کریں کہ انہوں نے صحت حدیث کے معاملے میں صرف سند کی صحت کو ملحوظ خاطر نہیں رکھا بلکہ محدث و فقیہ کے استدلال کو بھی دلیل صحت بنایا ہے۔

اصل نمبر 3: اگر کسی روایت کے مضمون پر اجماع ہو جائے تو وہ روایت قوی بن جاتی ہے اگر اس کی سند میں کوئی ضعف ہو تو اجماع کے بعد ضعف ختم ہو جاتا ہے۔

1۔ امام ابن عبدالبررحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں وقد روی عن جابر بن عبداللہ باسناد لا یصح ان النبی صلی اللہ علیہ وسلم قال الدینار اربعۃ وعشرون قیراطاً و ھذا الحدیث وان لم یصح اسنادہ ففی قول جماعۃ العلماء بہ واجماع الناس علی معناہ ما یغنی عن الاسناد فیہ۔

ترجمہ: حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک حدیث نقل کرتے ہیں جس کی سند صحیح نہیں ، حدیث یہ ہے کہ ایک دینار چوبیس قیراط کا ہوتا ہے ۔اس حدیث کی سند اگرچہ صحیح نہیں لیکن علماء کی ایک جماعت کا یہی قول اختیار کرنا اورلوگوں( فقہا ء و محدثین) کا اس کے معنی پر اجماع کر لینا اس کی سند سے بے نیاز کر دیتا ہے۔

2۔غیر مقلدین کے پیشوا قاضی شوکانی لکھتے ہیں ،’’ وقد اتفق اہل الحدیث علی ضعف ھذہ الزیادۃ لکنہ قد وقع الاجماع علی مضمونہا‘‘ (

ترجمہ:محدثین اس زیادتی کے ضعف پر متفق ہیں لیکن اس کے مضمون پر اجماع واقع ہو چکا ہے ۔ (یعنی اجماع کے بعد یہ ضعف نقصان دہ نہیں)

3۔دوسری جگہ لکھتے ہیں ’’وفی اسنادہ ابراہیم بن محمد شیخ الشافعی وھو ضعیف وقد وقع الاجماع علی ما افادتہ الاحادیث‘‘

ترجمہ: اس حدیث کی سند میں ابراہیم بن محمد شیخ الشافعی ہے جو کہ ضعیف ہے لیکن احادیث سے جو ثابت ہو رہا ہے اس پر اجماع ہو چکا ہے۔(لہٰذا یہ ضعف حدیث پر اثر انداز نہیں ہو گا۔)

قارئین کرام ! ملاحظہ فرمائیں امام ابن عبدالبر رحمۃ اللہ علیہ اور خود غیر مقلدین کے پیشوا قاضی شوکانی کی تصریحات کہ سندی ضعف کے باوجود اس کے مضمون پر اجماع نقل کر رہے ہیں اور امام ابن عبدالبر رحمۃ اللہ علیہ نے تو اجماع کی یہ قوت بیان کی کہ یہ سند سے بے نیاز کر دیتا ہے۔

علی زئی ’’صاحب‘‘! کاش آپ نے اپنے ’’پیشوا‘‘ قاضی شوکانی کی بات پر کان دھرے ہوتے اور اس ’’مقدس رشتے ‘‘کا بھرم رکھ لیتے ۔

قارئین کرام ! ان اصولوں سے معلوم ہوا کہ روایت کی صحت کے لئے صرف سند کا صحیح ہونا شرط نہیں جیسا کہ علی زئی مماتی غیر مقلد کا باطل نظریہ ہے بلکہ اگر روایت کو تلقی بالقبول یا اس کے مضمون پر اجماع ہو جائے تو سند پر بحث کرنے کی ضرورت ہی نہیں ہوتی۔

ان اصولوں کے بعد حاصل یہ ہے کہ شیخ گھمن حفظہ اللہ کی پیش کردہ روایت سے امام صاحب کا اعلم اور امام ہونا ثابت ہوتا ہے اور آپ کے امام و اعلم ہونے پر اجماع اکثری ہے اور اس کو تلقی بالقبول حاصل ہے لہٰذا اس روایت کا صحت کا درجہ حاصل کرنا یہ اصول حدیث کی رو سے ثابت ہے۔علی زئی مماتی غیر مقلد کا اس پر ضعف کا حکم لگانا یہ اس کی جہالت کی واضح دلیل ہے۔

اس روایت کی سند پر بحث کرنے کی ضرورت تو نہیں لیکن علی زئی کی جہالت کو واضح کرنے اور اتمام حجت کے لئے اس کی اسنادی حیثیت سے بھی بحث کی جاتی ہے، جس سے معلوم ہو گا کہ علی زئی مماتی غیر مقلد نہ صرف یہ کہ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کا بغض سینہ میں رکھتا ہے بلکہ اصول حدیث سے بھی جاہل ہے۔ علی زئی نے کہا کہ یہ روایت مناقب کردری میں بے سند ہے ۔ہم پوچھتے ہیں جناب کیا ایک کتاب میں سند کا نہ ہونا ضعف کی دلیل ہے ؟آپ بخاری شریف سے حضرت ابن زبیر کا عمل آمین کے متعلق پیش کرتے ہیں حالانکہ بخاری شریف میں اس کی کوئی سند مذکور نہیں ہے تو اب ہمت کریں اور اس کو بے سند ہونے کی وجہ سے ضعیف قرار دے دیں۔اس کے بعد علی زئی نے ہماری پیش کردہ روایت کے چند راویوں پر جرح کی ہے ۔

1۔ امام موفق بن احمد المکی پر علی زئی نے جرح نقل کی ہے اور اس کی وجہ سے روایت بلکہ ان کی ساری کتاب کو ناقابل اعتماد قرار دیا ہے۔حالانکہ ائمہ نے ان کو ادیب ،فاضل، لہ معرفۃ بالفقہ والادب، کان ادیباً فقیہاً ،فقیہ قرار دیا ہے۔

قارئین کرام !جو ہستی فقیہ معرفت بالفقہ والادب جیسی خصوصیات رکھتی ہے ،علی زئی جیسا ’’محقق‘‘ اسے ضعیف ثابت کرنے کے درپے ہے ۔فقیہ کو مجروح اور ضعیف قرار دینا علی زئی جیسے دجاہل ہی کا کام ہے۔

علی زئی کہتا ہے کہ ’’ موفق بن احمد معتزلی اور رافضی ہونے کی وجہ سے مجروح ہے لہٰذا اس کی ساری کتاب ناقابل اعتماد ہے۔‘‘واہ !کیسا اصول بنایا ہے ’’جناب‘‘ نے ۔ہم پوچھتے ہیں کہ صحیح بخاری میں کتنے راوی ہیں جن پر’’ رافضی ‘‘’’مرجئہ ‘‘’’ناصبی ‘‘قدری وغیرہ ہونے کی جرح ہے تو کیا ان روات کی وجہ سے آپ صحیح بخاری کی احادیث کو ضعیف ناقابل اعتماد کہیں گے؟اور کیا ان روات کی وجہ سے بخاری شریف ناقابل اعتماد ہو جائے گی؟ اگر احادیث کی کتب کو ناقابل اعتماد قرار دینا آپ کا محبوب مشغلہ ہے تو صحیح بخاری کے بارے میں اپنی رائے ضرور دیجئیے۔

الحاصل امام موفق بن احمد المکی ادیب ، فاضل اور فقیہ ہیں اور فقہ کی نعمت تو اس کو ملتی ہے جس کے ساتھ باری تعالی بھلائی کا ارادہ فرماتے ہیںکما فی الحدیث من یرد اللہ بہ خیرا یفقہہ فی الدین۔اللہ تعالی نے امام موفق المکی کو فقہ کی دولت سے نوازا لیکن فقہ کے دشمن عقل کے پجاری علی زئی سے یہ نعمت ہضم نہیں ہو رہی ،الحاصل ،امام موفق مکی کے فقیہ ثابت ہونے کے بعد ان پر جرح کرنا باطل ہے۔

2۔ دوسرے راوی امام ابو محمد الحارثی ہیں جن پر علی زئی نے جرح نقل کی ہے۔ان کی توثیق درج ذیل ہے۔

امام ذہبی فرماتے ہیں:

(ابو محمد الحارثی ) الشیخ الامام الفقیہ العلامہ المحدث عالم ما ورا ء النھر۔

دوسری جگہ فرماتے ہیں ۔ العلامہ ابومحمد عبد اللہ بن محمد بن یعقوب بن الحارث البخاری الفقیہ ،شیخ الحنفیہ بماء ورا ء النحر و یعرف بعبداللہ الاستاذ وکان محدثا جوالاً راساً فی الفقہ صنف التصانیف۔

حافظ ابن حجر نے بھی ان کو فقیہ قرار دیا۔

ملاحظہ فرمائیں کہ امام ابو محمد الحارثی محدث بھی ہیںاور فقیہ بھی ،لیکن علی زئی ان کو ثقہ ماننے کے لئے تیار نہیں، آگے علی زئی نے یہ ’’گل فشانی‘‘کی ’’ان کو الامام ، الفقیہ ، الاستاذ کے القاب سے کوئی فائدہ نہیں‘‘۔ جناب یہ کس محدث کا اصول ہے کہ ان الفاظ سے تو ثیق ثابت نہیں ہوتی؟چاہئیے تو یہ تھا کہ جناب کسی محدث کسی امام کا حوالہ دیتے کہ الامام الفقیہ الاستاذ سے تعدیل و توثیق ثابت نہیں ہو تی لیکن جناب نے صرف اپنی کتاب کا حوالہ دیا کہ’’ دیکھئیے میری کتاب تحقیقی مقالات ‘‘۔سرائیکی زبان کا ایک محاورہ ہے کہ ’’ چور دا گواہ گنڈھ کپ‘‘ یعنی چور کے حق میں جس نے گواہی دی وہ خود جیب تراش ہے۔جناب نے بھی اپنے حق میں خود گواہی دی ہے ۔جناب !فقیہ تو اللہ کا محبوب ہوتا ہے ۔آپ اللہ کے محبوب سے کیوں دشمنی کر رہے ہیں۔لہٰذا فقیہ اور امام ہونے کی وجہ سے امام ابو محمد الحارثی پر جرح مردود ہے۔

3۔تیسرے راوی ہیں امام ابو عصمہ سعد بن معاذ المروزی۔ ان پر علی زئی نے مجہول ہونے کی جرح نقل کی ہے۔حالانکہ اصول حدیث کی رو سے یہ جرح بھی مردود ہے ،کیونکہ مجہول کی دو قسمیں ہیں۔

۱۔ مجہول الحال ۲۔ مجہول العین

مجہول الحال کا مطلب جس کی عدالت ظاہر نہ ہو ،مسلمان ہو۔امام اعظم ابو حنیفہؒ اور آپ کے متبعین کے نزدیک مجہول الحال کی روایت قبول کی جائے گی یعنی راوی کا مسلمان ہونا اور فسق سے بچنا اس کی روایت کی قبولیت کے لئے کافی ہے۔

مجہول العین کا مطلب یہ ہے کہ علماء اس راوی اوراس کی روایت کو نہ پہچانتے ہوں۔اس سے صرف ایک راوی نے نقل کیا ہو بالفاظ دیگر اس سے ایک شاگرد نے روایت نقل کی ہو۔

مجہول کی اقسام میں سے ایک قسم بھی ابو عصمہ پر صادق نہیں آتی نہ مجہول الحال نہ ہی مجہول العین۔احناف کے اصول کے مطابق تو اس کی روایت قبول ہے ہی دیگر ائمہ کے اصول کے مطابق بھی اس کی روایت قبول ہے کیونکہ ان کے شاگرد کئی ہیںاور یہ ہیں بھی مسلمان۔ لہٰذا ان کی روایت قبول ہو گی۔ خود امام ذہبی ؒ نے بھی جب ان کا ترجمہ نقل کیا ان کے شاگردوں کا تذکرہ فرمایا کہ ان کے شاگردوں میں ابو رجاء محمد بن حمدویہ اور اہل مرو شامل ہیں۔ ان کے دوسرے شاگرد ابو محمد نبہان بن اسحاق ہیں۔

تو امام ذہبی کا ان کے شاگردوں کو ذکر کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ یہ مجہول نہیں ہیں لہٰذا زبیرکا زنبوری اعتراض معترض کی ذات کی طرح مردود ہے۔

آخر میں علی زئی نے ’’خلاصۃ التحقیق‘‘ کے نام سے کہا کہ یہ روایت ان راویوں کی وجہ سے موضوع ومن گھڑت ہے ۔جناب! یہ روایت موضوع تو کیا ضعیف بھی نہیں کیونکہ اس کے مضمون اور معنی پر اجماع ہے اور اس کو تلقی بالقبول کا درجہ حاصل ہے فلہٰذا متکلم اسلام حضرت مولانا محمد الیاس گھمن صاحب حفظہ اللہ کا اس روایت کی سند کو صحیح فرمانا اصول کی رو سے بالکل درست ہے ۔اس پر اعتراض کرنا علی زئی کذاب کی جہالت ہے۔

آخر میں ہم قارئین کی خدمت میں خود زبیر علی زئی کے الفاظ پیش کرنا چاہتے ہیں اور عوام کو صحیح راستہ کی طرف دعوت دیتے ہیں ۔’’قارئین کرام خود فیصلہ کر لیں کہ وہ اہل سنت کی معتبر کتابوں اسماء الرجال کے مستند اماموں اور اصول حدیث پر عمل کرنا چاہتے ہیں یا سلف صالحین کے رستے کو چھوڑ کر جدید محققین اور باغیان سلف صالحین ( مثلاًعلی زئی کذاب اور اس کے متبعین…از ناقل) کے پیچھے چلنا چاہتے ہیںجو انہیں صراط مستقیم اور عدل و انصاف سے ہٹا کر ہلاکت و گمراہی کی پگڈنڈیوں پر گرانا چاہتے ہیں؟‘‘

علی زئی مماتی غیر مقلد نے بالکل بجا بات کہی ہے کیونکہ علی زئی اصول حدیث اور سلف صالحین کو چھوڑ چکے ہیں ۔سلف نے تلقی بالقبول کو دلیل صحت مانا، اجماع سے ضعف کی دوری کا اصول اپنایا ہے لیکن علی زئی ابھی بھی ان اصولوں کو پس پشت ڈال کر امام اعظم فی الفقہا کے بارے میں مروی روایت (جس کے مضمون اور معنی کو تلقی بالقبول حاصل ہے) پر اعتراض کر کے گمراہی کی وادی میں بھٹک رہے ہیں اور مجذوبانہ واویلا کر رہے ہیں۔

Read 7413 times

DARULIFTA

Visit: DARUL IFTA

Islahun Nisa

Visit: Islahun Nisa

Latest Items

Contact us

Markaz Ahlus Sunnah Wal Jama'h, 87 SB, Lahore Road, Sargodha.

  • Cell: +(92) 
You are here: Home Islamic Articles (Urdu) علی زئی غیر مقلد کا مجذوبانہ واویلا

By: Cogent Devs - A Design & Development Company