AhnafMedia

Ahnaf trust ka qayaam

Rate this item
(2 votes)

احناف ٹرسٹ کا قیام

محمد الیاس گھمن

 

تاریخ بغداد میں لکھاہے: ’’بسا اوقات امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کسی انجان آدمی کے پاس سے گزرتے تو اس کے ساتھ بیٹھ جاتے۔ جب وہاں سے کھڑے ہوتے تو اس سے پوچھتے اگر وہ شخص فاقہ زدہ ہوتا تو اس کی معاونت کرتے اگر مریض ہوتاتواس کی عیادت کرتے۔‘‘

امام صاحب رحمہ اللہ کی خدمت خلق، ہمدردی، ایثار، غم خواری اوررفاہ عامہ میں قابل قدر کاوشیں اورتعلیمات ہمارے لیے مشعل راہ ہیں۔جب کبھی بھی انسانیت پرکوئی آزمائش، مصیبت یا آفات آئی، امام صاحبؒ اور ان کے متبعین نے ان لمحات میں مصیبت زدہ عوام کی خدمت کواپنے لیے سعادت سمجھاہے۔

حسن اتفاق سمجھئے کہ’’احناف ٹرسٹ‘‘ کا آغاز 17 رمضان المبارک کوہوااور’’احناف میڈیا سروس‘‘کاآغازبھی ایک سال قبل17رمضان المبارک ہی کوہواتھا۔رمضان المبارک میٖں غریب اور مفلس لوگوں کی حالت کااندازہ ہوتاہے ۔ کیونکہ جب آدمی خودخالی پیٹ ہوتاہے تو ’’خالی پیٹ‘‘والوں کا اندازہ بجاطورپرمعلوم ہوتاہے۔

خیر!وطن عزیزمیں سیلاب کی تباہ کاریاںزوروں پرتھیںاور بندہ ادائیگی عمرہ کے لیے’’محبوب کل جہاں صلی اللہ علیہ وسلم ‘‘کے شہر مبارک میں تھا۔احناف میڈیاسروس والے ذمہ داران ساتھیوں سے مسلسل میرا رابطہ تھا چنانچہ ان سے مشورہ میں یہ طے پایاکہ سیلاب زدہ علاقوں کی صورتحال کاجائزہ لے کر ان کی ہر ممکن امداد کی جائے۔

جن بہنوں اوربھائیوں ہماری ویب سائیٹسwww.alittehaad.org اور

m www.islahunnisa.coکودیکھا ہے۔ وہ اس بات پر شاہد عدل ہیں۔

بیرون سفرواپسی پر ساتھیوں نے مجھ سے کہا کہ’’حضرت آپ نے گھر بعد میں جاناہے پہلے سیلاب زدہ علاقوں میں خیمے، راشن،ادویات اورنقدی تقسیم کرنی ہے‘‘میں نے صورتحال کی آگاہی چاہی تو انہوں نے مجھے بتلایاکہ’’ہم تقریبا18لاکھ کی امدادتقسیم کرچکے ہیں۔‘‘

بندہ پہلے کراچی سے ملتان اورپھررات کولیہ پہنچا۔بعد میں احناف میڈیاسروس کے ذمہ داران عزیزم مولانا عابد جمشید اورمولانا محمد کلیم اللہ پہلے سے موجود تھے۔ رات کو مشاورت ہوئی اورصبح نماز سے پہلے ہم لیہ سے کوٹ سلطان کو چل دیے۔وہاں بھائی اللہ نواز سرگانی،محترم عمر فاروق سرگانی کے مدرسہ حسین بن علیؓ میں خیمے اور راشن وغیرہ کی تقسیم کی تقریب منعقد کی گئی تھی۔اس سفر میں محترم بھائی سعید باجوہ صاحب بھی میرے ہمراہ تھے۔ امداد کی تقسیم کے بعد عزیزم مولانا عثمان زاہد صاحب نے مجھے علاقے کی صورتحال سے تفصیلاً آگاہ کیا۔

کوٹ سلطان سے سید ھاہم نے لیہ آناتھا۔یہاں پر بھی متاثرین میں خیمہ جات، راشن اور نقدی تقسیم کرنی تھی۔ جامع مسجد فاروق اعظم میں یہ تقریب منعقد کی گئی تھی۔

میں یہاں ایک بات کوذکر کرنا ضروری سمجھتاہوں کہ ہم نے آخر کیوں لوگوں کو اکھٹا کرکے ایک الگ جگہ پر امداد دی ہے اس کی وجہ یہ تھی کہ علاقے کے لوگوں صورتحال یہ ہوچکی تھی کہ جو بھی مخیر حضرات جاتے ان کے ساتھ براسلوک ہوتابعض بیچارے مخیرین کو متاثرین نے ماراپیٹا بھی سہی جو کہ ایک مہذب اورتعلیم یافتہ قوم خصوصاً مسلم قوم کے لیے ہرگز زیبا نہیں۔

خیر!جامع مسجد فارق اعظم لیہ میں محترم جناب قاری صبغت اللہ ،بھائی محبوب عالم ، بھائی حافظ محمد مجتبیٰ ودیگر لوگوںنے حسن انتظام کی ایک مثال قائم کررکھی تھی۔ مختصر سا خطاب کرکے خیمہ جات اور راشن وغیرہ تقسیم کیااورپھر ہم لیہ سے چوک اعظم چل دیے، یہاں ایک اسلامی لائبریری شروع کی گئی ہے جس کامقصد اہل علاقہ کی علمی ضروریات کوپوراکرناہے۔ لائبریری میں چند منٹ ہم رکے اوروہاں سے پھر سیدھافتح پورجاپہنچے۔

فتح پورمیں جامعہ اہل السنۃ والجماعۃ دیوبند میں امدادی سامان کی تقسیم کا انتطام کیاگیا تھا ۔ علاقے کی ہر دل عزیز شخصیت جناب قاری محمد ایوب، مولانا محمد افضل، بھائی عبیداللہ نے پہلے سے ٹوکن وغیرہ جاری کر رکھے تھے۔ یہاں پر کروڑلعل عیسن،بستی قاضی، بستی شینہ والا اورمضافات سے متاثرین آئے ہوئے تھے۔

میں خصوصاًان کم سن طالب علم بھائیوں کاجنہوں نے امدادی سامان کی پیکنگ بڑی جانفشانی سے کی ، جہاں شکرگزارہوں وہاں ان کے لیے دعاگوبھی ہوںکہ اللہ ان سب کو اخلاص کے ساتھ اپنے دین کے لیے قبول فرمائے۔

باقی سیلاب زدہ علاقوں میں سے راجن پور،جام پور، کوٹ ادو، دائرہ دین پناہ، تونسہ، ڈیرہ اسماعیل خان کے ساتھیوں سے نقدی تعاون کیا اورتھوڑا بہت سامان راجن پورکی طرف بھیجا۔

یہ سب کچھ احناف میڈیاسروس کی ٹیم نے ویڈیو زکی صورت میں حفوظ کرکے اپنی مذکورہ بالا ویب سائیٹس اوریوٹیوب پراپ لوڈکردیاہے۔ اللہ ان کی محنتوں کواپنی بارگاہ میں قبول فرمائے۔

میں اپنی مائوں، بہنوں ،بیٹیوںاور بھائیوں سے عرض کروں گا کہ آپ ہماراکام دیکھیں اور اس کے بعد ہمارے ساتھ اس کار خیر میں دل کھول کر تعاون کریں۔

سیلاب زدہ علاقوں میں ’’احناف میڈیا سروس‘‘ کی ٹیم نے وہاں چند دن سیلاب بیتی کے نام سے ایک سلسلہ شروع کیاتھا اورہر روزہزاروں لوگوں تک اپنا پیغام بذریعہ ای میل پہنچاتے رہے۔سیلاب بیتی اصل میں وہاں کے متاثرہ علاقوں کی کار گزاری ہے۔ آپ ان کو پڑھیں ، اگر ان کودیکھناہوتوہماری مذکورہ ویب سائٹس اوریوٹیوب پراس کوملاحظہ فرمائیں۔

سیلاب بیتی نمبر1:

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ: تمام حضرات کو اس بات سے مطلع کیا جاتاہے کہ ’’احناف ٹرسٹ‘‘ اور’’حقانیہ ٹرسٹ ‘‘کی مشترکہ محنتوں سے متاثرین سیلاب زدگان کی امداد کا سلسلہ جاری وساری ہے۔ 250خاندانوں کی مکمل کفالت اور ان کی دیکھ بھال کی ذمہ داری کارکنان احناف وحقانیہ ٹرسٹ کے رضاکار بڑی جانفشانی سے ادا کر رہے ہیں۔ اس وقت تک 4 ٹرک راشن اور 3 لاکھ روپے سے زائد مالیت کی ادویات بھیجی جاچکی ہیں جو وہاں پر متاثرین میں تقسیم کردی گئی ہیں۔ ٹرسٹ کے زیر انتظام ایک ماہر تجربہ کار ڈاکٹرصاحب موجود ہیں جو متاثرین کے امراض کی تشخیص اوران کے علاج معالجہ کا فریضہ سر انجام دے رہے ہیں۔

احناف ٹرسٹ کے ذمہ داران آج متاثرہ علاقوں کا دورہ کریں گے اور آپ حضرات کو وہاں کی تازہ ترین صورتحال سے آگاہ کریں گے اورایک سلسلہ بنام سیلاب بیتی کے نام سے شروع کیا جارہا ہے جس میں آپ وہاں کے متاثرین کے انٹر ویو ز اور ان کی دُکھ بھر ی کہانی سن سکیں گے۔

احناف ٹرسٹ کے ذمہ داران صبح 7 بجے یہاں سے روانہ ہو چکے ہیں اور اپنے ساتھ 85 واٹر پروف خیمے اور راشن کا ایک ٹرک لے کر جارہے ہیں۔

سیلاب بیتی نمبر2:

سیلاب سے متاثرہ علاقوں لیہ ، فتح پور ، کروڑ اور مضافات میں آج ہمارا پہلا دن ہے۔ یہاں کی صورتحال انتہائی خراب ہے، دریائے سندھ میں شدید طغیانی ہے، لوگوں کے پکے مکانات تک ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں اور ان کے مال مویشی اور غلے کے حفوظ ذخائر وغیرہ بھی سیلاب کی نذر ہوچکے ہیں۔ بزرگ عالم دین مولانا محمد افضل صاحب علاقہ میں اپنے رفقاء کار کے ساتھ متاثرین کی مکمل معاونت کر رہے ہیں اور مکمل جانچ پڑتال کے بعد اصل مستحقین تک امدادی اشیاء پہنچا رہے ہیں۔

ہم علی الصبح ان شاء اللہ تعالی کچے کے علاقے شینہ والا، بستی قاضی، بستی لسکانی والا ، بستی خیر شاہ، گرہ سواگہ، چک شہانی، بستی گنڈہ وغیرہ کا دورہ کریں گے اور وہاں کی تازہ ترین صورتحال سے آپ کو آگاہ کریں گے۔

علاقے میں انٹرنیٹ کی معقول سہولت میسر نہ ہونے کی وجہ سے آج کی ویڈیوز، انٹرویوز اور تصاویر کو ای میل کے ساتھ اٹیچ کرنا اور یو ٹیوب پر اپ لوڈ کرنا ناممکن ہے۔ ہماری کوشش ہوگی کہ کل رات تک لیہ شہر پہنچ کر ویڈیوز، انٹرویوز اور تصاویر کواپ لوڈکرکے آپ تک پہنچا سکیں۔

سیلاب بیتی نمبر 3:

آج صبح سات بجے ہم لوگ فتح پورسے کروڑ شہراور بستی شینہ والا کی طرف نکلے۔ راستے میں جا بجا لوگوں کے اجڑے مکانات نظر آئے ،کروڑ سے بستی شینہ والا تک جاتے ہوئے ہمیں یہاںتقریباً ڈیڑھ گھنٹہ لگ گیا حالانکہ یہ راستہ صرف15سے 20منٹ کا ہے سڑک مکمل طور پر ٹوٹ چکی تھی اورلوگوں نے گہری جگہوں پر گزرنے کے لیے کھجور کے لمبے لمبے تنے ڈال رکھے تھے اوراپنی مدد آپ کے تحت وہاں سے اپنا سامان منتقل کررہے تھے۔

گھر ٹوٹے ہوئے،چہرے پژمردہ،اداسی اورمایوسی کاعالم ، کیا بچے کیا بوڑھے سب اپنے گھروں کے ملبے ہٹانے میں مصروف ہیں اور ان کی از سر نوتعمیر کرناچاہتے ہیں۔ لیکن سادہ چاردیواری کی تعمیر میں بھی کم از کم ایک ماہ لگ جائے گا۔اس وقت تمام متاثرین کا مطالبہ تھاکہ ہمیں فوری طورپرخیمے فراہم کئے جائیں تاکہ ہماری با پردہ خواتین اور معصوم بچے اپنا سر چھپا سکیں ہم نے کچے کے جن دوردراز علاقوں کا دورہ کیا وہاں کے لوگوں کا کہنا تھا کہ کسی بھی سرکاری یا غیرسرکاری رفاہی تنظیم نے ہمیں ایک مٹھی بھر راشن بھی فراہم نہیں کیا۔ راستے کی جو کیفیت تھی اورجن مشکلات میں ہم وہاں تک پہنچے ان کو دیکھتے ہوئے ان لوگوں کا یہ شکوہ سوفیصد سچ محسوس ہو رہا تھا ۔

مولانامحمد الیاس گھمن حفظہ اللہ کی ہدایت پر بزرگ عالم دین مولانا محمد افضل صاحب اوران کے رفقائے کار مختلف ٹولیوں کی شکل میں علاقے بھر کے دوردراز مقامات اور بستیوں میں جاکر متاثرین کا اندراج کررہے تھے اورمکمل جانچ پڑتال کے بعد ان تک امدادی سامان کی فراہمی کوممکن بنارہے تھے۔ چند ویڈیوز اورتصاویر ہم نے کیمرے کی آنکھ سےحفوظ کرلی ہیں جوعنقریب آپ تک پہنچادی جائیں گی۔

ہم سب نے مل کران کے دکھوں کا مداوا کرنا ہے عید بالکل قریب ہے لوگ آپ کی امداد کے منتظر بلکہ شدت کے ساتھ منتظر ہیں۔ ہم نے باہمی مشورے سے یہ طے کیا ہے کہ جن مستحق گھرانوں کا اندراج کیا گیا ہے سامان خورونوش کاایک عید پیکج ان گھرانوں تک پہنچایاجائے ایک گھرانے کے لیے تقریباً سات سے دس دن تک کے عید پیکج کی مالیت تقریباً سولہ سو روپیہ ہے۔ جن مستحق گھرانوں کا مکمل جانچ پڑتال کے بعد اندراج کیاہے ان کی تعداد پانچ سو سے زائد ہے اور ان میں اکثر وہ گھرانے ہیں جن کے پاس فی الحال سوائے مولانا محمد افضل اوراحناف ٹرسٹ کے علاوہ دیگر کوئی سرکاری یاغیرسرکاری ادارہ نہیں پہنچا۔آئیے !آگے بڑھیے اور ان متاثرین کی امداد کرکے اپنے اللہ کوراضی کیجیے۔ حالات بہت سنگین ہیں اوروقت بہت کم۔ جلدی کیجئے! کہیں دیر نہ ہو جائے۔

آج ہم دوگھنٹے سے زیادہ کاسفر موٹرسائیکل پرطے کرکے لیہ شہر پہنچے تاکہ آپ تک متاثرین کی ویڈیوز،انٹرویوزاوران کے مکانات کی حالت زار کی تصاویر پہنچا سکیں۔وائے حسرت یہاں بھی بجلی ندارد اور موبائل پربراؤزنگ کرتے ہوئے صرف ٹیکسٹ ہی لکھا جاسکتاہے۔ویڈیوز اورتصاویراپ لوڈ یااٹیچ نہیں کی جاسکتیں۔ انشاء اللہ ان علاقوں سے واپسی پرآپ تک یہ تمام ویڈیوزاورتصاویرپہنچادی جائیں گی

سیلاب بیتی نمبر4:

حسب معمول ہم لوگ صبح سویرے اپنے متاثرین بھائیوں کے دکھ درد میں شریک ہونے کے لیے نکل کھڑے ہوئے راستہ میں ہم نے چارخاندانوں میں تقریبا75ہزارنقدی تعاون بھی کیا۔ان میں سے ایک بیوہ تھی ، بیوہ کی صورت حال یہ تھی اس بیچاری کاکمانے والاکوئی نہیں تھا۔چارجوان بیٹیاں ہیں جوباپردہ ہیں اوروہ بیچاری ضعیف العمر ہونے کی وجہ سے راشن اورسامان لینے کے لیے قطاروں کی مصیبت بالکل برداشت نہیں کرسکتی۔

اس کے علاوہ کوٹ سلطان کے علاقہ میںایک شخص سے ملے جس کے بارے میں ہمیں معلوم ہوااس کاجواں سالہ بیٹا اس سیلاب میں بہہ گیا ہے اوروہ خوددماغی توازن کھو بیٹھا ہے۔اس وقت پورا خاندان بالکل بے آسرا اوربے یارو مدد گار ہے۔

انہوں نے احناف ٹرسٹ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ’’ہمارے پاس بالکل کوئی امداد نہیں پہنچی ہم نے ایک سو روپے کاپلاسٹک شاپر خریداہے جوہم سب گھر والے رات کو اوپر لے کر سوتے ہیںنہ ہمارامکان ہی بچااورنہ ہی ہمیں خیمے ملے۔‘‘ان کی ہچکیاں بندھ چکی تھی ہم نے ان سے حسب وسعت نقدی تعاون کیا اوران کوخیمہ دینے کا وعدہ بھی کیا۔

کوٹ سلطان میں ہماری ملاقات مولاناعثمان زاہد صاحب سے ہوئی جوکہ مرکز اہل السنۃ والجماعۃ سرگودھا کے متخصص ہیں انہوںنے مولانا محمدالیاس گھمن صاحب کی ہدایت پر پورے علاقے میں قابل رشک امدادی سرگرمیاں سرانجام دی ہیں۔

مولانا نے احناف ٹرسٹ کے کارکنان کو علاقے کی صورتحال سے تفصیلاً آگاہ کیا۔ مغرب کے قریب ایک شخص غلام عباس صاحب تشریف لائے سیلاب کے دنوں میں انہوںنے اپنی چارپائی ایک درخت کے اوپر باندھ دی تھی ،تین دن تین رات مسلسل اس چارپائی پر گزارے ہم صبح ان شاء اللہ ان کے علاقے (بیٹ بلوچ خان)میں جارہے ہیںہماری کوشش ہوگی کہ ہم ان سے اسی چارپائی پر بیٹھاکر تفصیلی انٹرویولیں اور اس کی ویڈیو بہت جلد آپ حضرات تک پہنچائیں گے۔ تاکہ آپ کو اندازہ ہوسکے کہ متاثرین کن مشکل حالات سے دو چار ہیں ۔ ’’احناف ٹرسٹ ‘‘ اور’’حقانیہ ٹرسٹ‘‘ کی مشترکہ کاوشوں سے امدادی سامان سے لدا ہوا ایک اورٹرک ان شاء اللہ کل صبح اس علاقے میں پہنچے گا۔

اس وقت متاثرین کو خیموں کی شدید ضرورت ہے ایک خیمہ تقریبا 12ہزار میں آرہا ہے۔ دن کویہاں شدیدگرمی ہوتی ہے اور رات کوشبنم بارش کی طرح گرتی ہے لوگوں کے 80 فیصد مکانات تقریباً گرچکے ہیں۔رمضان المبارک کی با برکت ساعتوں میں اپنے مسلمان بھائیوں کے دکھ درد میں شریک ہو کر اپنی آخرت کے لیے زادِراہ جمع کیجئے۔

سیلاب بیتی نمبر5:

مدرسہ حسین بن علیؓ کوٹ سلطان سے آٹھ افراد پر مشتمل ہمارا قافلہ کوٹ سلطان کے متاثرہ علاقوں:موضع بلوچ خان، موضع بکھری احمد خان ،موضع گاڈی ،موضع زور، موضع بالو ،موضع گُجی ،موضع نوراسی، موضع شاہ والااورپتن شاہ والا کی طرف چل نکلا۔

راستے میں ہم نے لوگوں کے وہ خیمے دیکھے جوانہوں نے دو چارپائیوں کو کھڑا کرکے اوپر کپڑا ڈال کر بنا رکھے تھے۔ کسی نے اپنے گھر کے سامان کو رکھ کر اوپر سے ایک پلاسٹک لفافہ ڈال رکھا تھا ہم نے سوچا کہ چلوسیلاب کا اب خطرہ نہیں رہا لیکن اب بھی اگر تیز بارش شروع ہوجائے تویہ ’’خودساختہ‘‘ کمزور خیمے کہاں کام دیتے ہیں؟؟؟ اوریہ پھٹا پرانا پلاسٹک لفافہ کس کس چیز کو بچائے گا؟ یہ لوگ اللہ توّکل بیٹھے ہیں۔

اس بات کا صحیح اندازہ ہمیں اس وقت ہوا جب ہم نے ایک معمر شخص کا انٹرویولیاجب اس سے ہمارے ساتھی نے پوچھا کہ اتنا لمباعرصہ ہوچکاہے سیلاب آئے،کیاآپ تک کوئی امداد پہنچی؟ تواس نے رندھی آواز اور ڈبڈباتی ہوئی آنکھوں کے ساتھ آسمان کی طرف منہ کیا اورکہا’’ہمارااللہ ابھی بھی ہے وہ اپنی مخلوق پر ظلم نہیں کرتا۔‘‘ہم نے اس شخص کے توّکل اورصبرکایہ عالم دیکھاتو حیرت میں ڈوب گئے۔

ایک کچے گھر کا ملبہ دورسے ہمیں گویا یوں کہہ رہا تھاکہ مجھے دیکھو میں بھی کسی کی بے بسی کی تصویر ہوں۔جب احناف ٹرسٹ کی ٹیم وہاں پہنچی تو معلوم ہوا یہ پانچ یتیم بچوں کاگھر ہے جوسیلابی پانی سے مکمل طور پر تباہ ہوچکاہے۔ہم نے بچوں کے سروں پرشفقت کاہاتھ رکھا اورجتنا ہم ہوسکا ان سے نقدی تعاون کیا۔رقم دیتے ہوئے ہماراضمیرہمیں جھنجھوڑ جھنجھوڑ کر کہہ رہاتھا :’’جو کچھ بھی ہے سب ان کو دے دو ۔ ‘‘ لیکن باہمی مشاورت میں یہی طے پایا تھا کہ دیگر خاندانوںمیں بھی تقسیم کرناہے اس لیے……

راستے میں ہم نے لوگوں کی اپنی مدد آپ کے تحت بنائی ہوئی کشتیاں بھی دیکھیں ، لوہے کے خالی ڈرموں کوآپس میں باندھنے کے بعد ان پر ایک چارپائی ڈال کر کشتی بنائی گئی تھی۔ایک اور ننھے ملاح کوہم نے لوہے کے ایک بڑے کڑاہ پر اکیلے ہی سیلابی پانی کا سفر کرتے ہوا دیکھا یہ وہ کڑاہ ہے جس میں گنے کے رس کوپکاکرگڑ بنایاجاتاہے۔(ہم نے یہ منظر بھی کیمرے کی آنکھ میں محفوظ کرلیا) جب اس کو بلند آواز سے پکارکرکہا:’’ تم کدھر جارہے ہو؟‘‘ تو اس بچے نے جواب دیا کہ میں اپنے ملیر(ماموں کے بیٹے ) کولینے جارہاہوں۔

ہم نے اس ننھے ملاح کی جرأت وہمت کو داد دی اورآگے روانہ ہوگئے۔ متاثرہ علاقوں کا دورہ کرتے ہوئے ہم لوگ ’’پتن شاہ والا‘‘پہنچ گئے۔ ’’پتن ‘‘دریاکے اس کنارے کو کہتے جہاں سے کشتی کے ذریعے سفرکرکے دوسرے کنارے تک جایا جاسکے۔ ہم چاہتے تھے کہ دوسرے کنارے پرجائیں اور وہاں کے لوگوں کی صورت حال کا جائزہ لیں۔لیکن دریاکے درمیان میں پہنچ کر پانی کی منہ زور موجوں نے کشتی کو مزید آگے جانے کی اجازت نہ دی۔ اس جگہ تقریباً دریا کا پاٹ پانچ سے چھ کلومیٹر چوڑا تھا۔نہ چاہتے ہوئے بھی ہمیں واپس آناپڑا۔

واپسی پرہم بستی خالد بن ولید رضی اللہ عنہ میں گئے وہاں مکمل طورپرشہیدایک مسجد اور مدرسہ کے ساتھ نقدی تعاون کیا۔پس اسی دوران ہمیں فون پرا طلاع ملی کہ لاہورسے آنے والا امدادی سامان کا ٹرک جامع اہل السنۃ والجماعۃ فتح پور پہنچ چکاہے۔

ہم کوٹ سلطان سے لیہ ،لیہ سے چوک اعظم ،چوک اعظم سے فتح پور پہنچے۔امدادی سامان مدرسہ کے ایک بڑے ہال میں اتارا گیا جہاں امدادی سامان کی پیکنگ کی جائے گی اوراس کو متاثرہ لوگوں تک پہنچانے کاانتظام کیا جائے گا ۔

باقی ایام میں احناف ٹرسٹ کے ساتھی کام کاج میں اتنے مصرو ف ہوچکے تھے کہ ان کے بقول ہمیں سیلاب بیتی لکھنے کا بھی وقت نہیں ملا ۔آخرمیں دعاہے کہ اللہ ہم سب کو اخلاص کے ساتھ کام کرنے کی توفیق بخشے اور مصیبت زدہ بھائیوں اور بہنوں کی مشکلات ختم فرمائے ۔

آمین بجاہ النبی الکریم

Read 2478 times

DARULIFTA

Visit: DARUL IFTA

Islahun Nisa

Visit: Islahun Nisa

Latest Items

Contact us

Markaz Ahlus Sunnah Wal Jama'h, 87 SB, Lahore Road, Sargodha.

  • Cell: +(92) 
You are here: Home Islamic Articles (Urdu) Ahnaf trust ka qayaam

By: Cogent Devs - A Design & Development Company