AhnafMedia

ذوالحجہ کی عبادات

Rate this item
(1 Vote)

ذوالحجہ کی عبادات

٭مولانا محمد کلیم اللہ

ماہ ذوالحجہ میں چند ایک خصوصی احکام یہ ہیں :

۱ : حج بیت اللہ (یہ صرف اسی مہینہ میں ہی ادا ہوتا ہے )۲ : قربانی(صاحب استطاعت مسلمانوں کے لیے واجب ہے اور اس مہینہ کے صرف تین دنوں میں ادا کی جاسکتی ہے )۳ : عیدالاضحی ۴ : تکبیرات تشریق (اس ماہ کے پانچ دنوں میں فرض نمازوں کے بعد ’’اللہ اکبر اللہ اکبر لا الہ الا اللہ واللہ اکبر اللہ اکبر وللہ الحمد ‘‘اونچی آواز سے کہنا ۔ ۵ : یوم عرفہ کا روزہ (یعنی نویں ذوالحجہ کو روزہ رکھنا ) ۶ : جس شخص نے قربانی کرنی ہو اس کا بال اور ناخن نہ کٹوانا ۷ : اس ماہ کی دسویں ،گیارہویں بارہویں اور تیرہویں تاریخ کو روزہ نہ رکھنا کیونکہ سال بھر میں اللہ تعالی کی طرف سے پانچ دن ممنوع ہیں کہ ان میں روزہ نہ رکھا جائے۔مذکورہ چار دن او ریکم شوال المکرم کا دن ۔

ہم ان میں سے صرف قربانی کے مسائل کا ذکر کیے دیتے ہیں چونکہ قربانی اللہ تعالی کے قرب کا ذریعہ ہے اس لیے چند شیطان صفت انسان اس مبارک عبادت میں بھی رخنہ ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں جیساکہ آگے مذکور ہوگا کہ کس طرح اس اہم عبادت کا یہ لوگ مذاق اڑاتے ہیں خیر! قربانی کے متعلق چند امور قابل ذکر ہیں ۔

-1 قربانی کا ثبوت -2 قربانی کا حکم -3 قربانی کا جانور

-4 جانور کی عمر -5 شرکاء اوران کی تعداد -6 قربانی کا وقت

-7 قربانی کے دن -8 قربانی کا نصاب -9 شرائط قربانی -10 ذبح کون کرے؟

1:قربانی کا ثبوت:

سورۃ کوثرمیں اللہ تعالی ارشاد فرماتے ہیں ’’فصل لربک وانحر۔

ترجمہ : نماز پڑھیے اپنے رب کے لیے اور قربانی کیجیے ۔

عن زید بن ارقم قال؛ قال اصحاب رسول اللہ ﷺ: یا رسول اللہ ! ما ھذہ الاضاحی ؟ قال: سنۃ ابیکم ابراھیم (علیہ السلام) قالوا: فما لنا فیھا یا رسول اللہ؟ قال : بکل شعرۃ حسنۃ ۔ قالوا: فالصوف یا رسول اللہ ؟ قال : بکل شعرۃ صوف حسنۃ۔

ترجمہ : ’’صحابہ کرام ؓ نے حضور اکرمe سے سوال کیا کہ یارسول اللہe ! قربانی کیا ہے ؟ آپ e نے ارشاد فرمایا :’’آپ کے باپ حضرت ابراہیم علیہ السلام کا مبارک طریقہ ہے ۔ صحابہ کرام ؓنے عرض کیا کہ یارسول اللہe اس میں ہمارے لیے کیا ہے ؟

آپ e نے فرمایا :’’ ہر بال کے بدلے نیکی ہے ۔‘‘صحابہ کرام ؓ نے پھر عرض کیا کہ اے اللہ کے رسولe ! اوراون میں (ہمارے لیے کیا ہوگا ؟)آپe نے فرمایا کہ اون میں بھی ہربال کے بدلے نیکی ہے ۔ ‘‘

2: قربانی کا حکم:

قربانی کا حکم یہ ہے کہ صاحب استطاعت پر واجب ہے اس کی تفصیل آگے آرہی ہے کہ آدمی صاحب استطاعت کب بنتاہے ۔

عن ابی ہریرۃ ؓ قال ؛ قال رسول اللہ ﷺ:’’ من کان لہ سعۃ، فلم یضح فلا یقربن مصلانا۔‘‘

اس حدیث مبارکہ میں بہت سخت وعیدہے کہ جس کے پاس وسعت بھی ہو اور وہ قربانی نہ کرے تو وہ شخص ہماری عید گاہ کے قریب بھی نہ آئے او رظاہر ہے کہ اس طرح کی وعید واجب کے چھوڑنے پر ہوتی ہے ۔

3: قربانی کا جانور :

قربانی کے لیے مذکورہ جانور ہی ذبح کیے جاسکتے ہیں بھیڑ ، بکری ، اونٹ، گائے مذکر ومونث۔

قال تعالی؛ ثمنیۃ ازواج من الضأن اثنین ومن المعزاثنین۔۔۔۔ ومن الابل اثنین ومن البقرا ثنین۔

فائدہ: بھینس بھی گائے کے حکم میں شامل ہے۔تحسب الجوامیس مع البقر

مزے کی بات یہ ہے کہ بھینس غیر مقلدین کے ہاںقربانی کے جانوروں میں شامل نہیں ہے۔جبکہ غیر مقلد عالم جناب نعیم الحق ملتانی نے ایک کتاب لکھی ہے ’’ بھینس کی قربانی کا تحقیقی جائزہ ‘‘ اس میں بھینس کی قربانی کو جائز کہا ہے اور دلائل سے منکر کو جاہل ثابت کیا ہے ۔

غیر مقلدین کے ہاں جو جانور زائد ہیں:

-1 مرغ کی قربانی جائز ہے ۔ -2 گھوڑے کی قربانی جائز ہے ۔

-3 انڈے کی قربانی جائز ہے ۔ 4: جانور کی عمر

بھیڑ ، بکری ایک سال، گائے دو سال ، اونٹ پانچ سال، ہاں البتہ بھیڑ اور دنبہ جو دیکھنے میں ایک سال کا لگتا ہو اس کی قربانی بھی جائز ہے ۔ اس لیے کہ حدیث مبارک میں ہے کہ ’’عن جابر بن عبد اللہ ؓ مرفوعاً : لا تذبحوا الا مسنۃ الا ان یعسر علیکم فتذبحوا جذعۃ من الضان۔‘‘

جبکہ غیر مقلدین کے ہاں مدار عمر پر نہیں ، مدار دانت ہیں کہ قربانی کے لئے دو دانتا ہونا شرط ہے ، عمر شرط نہیں۔مجھے یاد ہے کہ اس سبق میں استاد محترم مولانا محمد الیاس گھمن دامت برکاتہم نے فرمایا تھا کہ ’’جذعۃ سے مراد باتفاق امت دنبے اور بھیڑ میں چھ ماہ کی عمر والا جانور ہے ۔ مسنہ نہ ملنے کی صورت میں عمر کے اعتبار سے جانور کا تعین کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ مسنہ سے مراد عمر والاجانور ہے نہ کہ دانت والا ۔ساتھ ہی فرمایا کہ یہ جواب میری اپنی طرف سے ہے ،تاحال میں نے کسی کتاب میں اس کو نہیں پڑھا مزید فرمایا کہ اگر کسی دلیل سے میری یہ بات غلط ثابت ہو جائے تو اس غلطی کی نسبت میری طرف کی جائے

5: شرکاء اور ان کی تعداد :

بھیڑ، بکری میں ایک، گائے ، بھینس اور اونٹ میں سات آدمی شریک ہو سکتے ہیں۔ حدیث مبارک میں ہے کہ:

’’عن جابر امرنارسول اللہ ﷺ فی الابل والبقر کل سبعۃ منا فی بدنۃ ۔

جبکہ غیر مقلدین کہتے ہیں کہ گائے میں سات ، اونٹ میں دس اور بکری میں سارے گھر والے شریک ہو سکتے ہیں۔اہل السنت والجماعت کے ہاں شرکاء کا مسلمان ہونا ضروری ہے جبکہ غیر مقلدین کے نزدیک قادیانی بھی قربانی میں شریک ہو سکتا ہے ۔

6: قربانی کا وقت :

شہر اوربڑے گائوں میں عید کی نماز ادا کرنے کے بعد قربانی کا وقت شروع ہوتا ہے:’’عن انس ان رسول اللہ ﷺ صلی ثم خطب فامر من کان ذبح قبل الصلوۃ ان یعید ذبحاً۔‘‘ 7: قربانی کا دن :

جیساکہ ابھی ذکر کیا کہ قربانی کا وقت شہر اور بڑے گائوں میں نماز عید کے بعد جبکہ دیہات میں صبح صادق کے طلوع ہونے کے بعدسے شروع ہوتا ہے اوربارہویں تاریخ کی شام تک قربانی کا وقت موجود رہتا ہے اس کے بعد یعنی تیرہویں تاریخ کو قربانی نہیں کرنی چاہیے ۔’’ و وقت الاضحیہ یدخل بطلوع الفجر من یوم النحر الا انہ لایجوز لاھل الامصار الذبح حتی یصلی الامام العید فاما اھل السواد فیذبحون بعدالفجر۔‘‘

حضرت عبداللہ بن عمر ؓ فرماتے ہیں کہ قربانی کے دو دن ہیں قربانی کے دن کے بعد۔ یعنی دسویں ذو الحجہ کے بعد ’’مالک عن نافع ان عبد اللہ بن عمر قال : الاضحیٰ یومان بعد یوم الاضحٰی ۔‘‘

8: قربانی کا نصاب :

ہر اس شخص پر قربانی کا کرنا واجب ہے جس پر صدقۃ الفطر واجب ہے ۔

یاد رہے کہ قربانی کا نصاب اور زکوۃ کا نصاب الگ الگ ہے ، قربانی کو زکوۃ پر قیاس کرنا درست نہیں۔ سونا ، چاندی ، نقدی اور مال تجارت اور ضرورت سے زائد اشیاء مثلاً ٹی وی ، وی سی آر جیسی خرافات اور تین جوڑوں سے زائد کپڑوں کے جوڑوں اور وہ اشیاء جو محض زیب و زینت کے لئے گھروں میں رکھی ہوتی ہیں سال بھر استعمال نہیں ہوتی ہیں ان سب چیزوں کی قیمت یا بعض کی قیمت ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت کو پہنچ جائے تو قربانی کرنا واجب ہے اور اس پر سال کا گزرنا شرط نہیں ہے ۔

9: شرائط وجوب قربانی :

-1 حریت(آزاد ہونا ) -2 اسلام (مسلمان ہونا غیر مسلم اور مرتدین اس سے خارج ہیں جیساکہ قادیانی وغیرہ ) -3 غناء (یعنی صاحب استطاعت بھی ہو بالکل مفلوک الحال ، مفلس اورغریب پر قربانی کرنا واجب نہیں ہے ) -4 اقامت (مسافر پر قربانی واجب نہیں)

10: ذبح کون کرے؟

ذبح کرنے والے کے لیے ضروری ہے کہ وہ مسلمان ہو کفار اور یہود ہ و ہنود کا ذبیحہ جائز نہیں ہے یاد رہے کہ رافضی اور قادیانی بھی اس میں شامل ہیں ان کا ذبیحہ حرام ہے آج کل عام طور پر مسلمانوں میں ۳۳۳۳ یہ غفلت پائی جارہی ہے کہ وہ کسی رافضی سے ذبح کرالیتے ہیں یا قادیانی سے ۔ شریعت محمدیہ e کی رو سے رافضی کافرہیں جبکہ قادیانی مرتد ہیں ان کا ذبیحہ کسی طور پر حلال نہیں ۔

جبکہ غیر مقلدین کے ہاں مسلمان اور اہل کتاب کے علاوہ کوئی کافر بھی ذبح کرے تو جائز ہے چنانچہ نواب نور الحسن خان غیر مقلد لکھتے ہیں ۔ ’’ذبائح اہل کتاب و دیگر کفار نزد وجود ذبح بسملہ یا نزد اکل آں حلال است، حرام و نجس نیست ۔‘‘

علامہ وحید الزمان غیر مقلد لکھتے ہیں : ’’وذبیحۃ الکافرحلال اذ ذبح للہ و ذکر اسم اللہ عند الذبح۔‘‘

غیر مقلدین کے شیخ الکل فی الکل میاں نذیر حسین دہلوی ایک سوال کے جواب میں لکھتے ہیں:’’ واضح ہو کہ ذبیحہ اہل تشیع کا کھانا حلال ہے ، کیونکہ وہ اہل اسلام میں سے ہیں۔‘‘

آخری گزارش :

آپe کا مبارک معمول یہ تھا کہ آپ دو قربانیاں کرتے ایک اپنی طرف سے اور ایک اپنی امت کی طرف سے ،اس لیے تمام مسلمان بھائیوں سے گزارش ہے کہ اگر اللہ نے وسعت دی ہوتو جہاں آپ اپنی طرف سے قربانی کررہے ہوں وہاں نبی آخرالزمان e کی طرف سے بھی قربانی کریں اور اس کے ساتھ ساتھ کسی عزیز رشتہ دار کی طرف سے بھی قربانی کرنا چاہیں تو یہ بھی جائز ہے ۔

Read 3689 times

DARULIFTA

Visit: DARUL IFTA

Islahun Nisa

Visit: Islahun Nisa

Latest Items

Contact us

Markaz Ahlus Sunnah Wal Jama'h, 87 SB, Lahore Road, Sargodha.

  • Cell: +(92) 
You are here: Home Islamic Articles (Urdu) ذوالحجہ کی عبادات

By: Cogent Devs - A Design & Development Company