AhnafMedia

جماعت المسلمین کاتحقیقی جائزہ

Rate this item
(10 votes)

جماعت المسلمین کاتحقیقی جائزہ

٭مولانامحمدرضوان عزیز

گزشتہ قسط میں وعدہ کیا تھا کہ جماعت المسلمین کی مسند امامت پرجلوۂ افروز اشتیاق احمد صاحب کا پسِ منظر ،پیش منظر اورتہہ منظر تحریرکروں گا تاکہ حقیقت آشکاراہوکہ جن کی نظروں میں کوئی انسان جچتا نہیں خود دنیا ودین کی نظر میں وہ کس کیٹاگری کے لوگ ہیں۔ بانی جماعت المسلمین مسعود احمد BBcجنہوں نے تزکیہ نفس کو شریعت کا ابطال اورکھلم کھلاشریعت سے غداری قراردیا ہے۔

انہوں نے شریعت سے جو وفاداری کی ہے اورحسین لڑکیوں کی حسرت ہی دل میں لے کر اپنے انجام کو پہنچ گئے مگر بعد میں اشتیاق احمد نے تزکیہ نفس نہ ہونے کے باعث شریعت سے وفاداری کے تمام ریکارڈ توڑدیے ۔اب ان رہبروں کے روپ میں چھپے راہزنوں کی کارستانیاں ملاحظہ کریں۔

شکیل احمد عبداللہ وہ شخص ہے جوکوثرنیازی کالونی ناظم آباد کراچی نمبر۳۳ میں تیارہونے والے جدید اسلام رجسٹریشن نمبر۳۶۶/۱۹۸۵کوقبول کرکے جماعت المسلمین میں شامل ہوا۔

27 جون 1994کو ’’سمیرا‘‘ نامی لڑکی سے شادی ہوئی جو جماعت المسلمین کی رکن تھی۔ 26اپریل1998کوامیرجماعت اشتیاق احمدنے فسخ نکاح کاسر ٹیفکیٹ دے کراس کابیگم امیرانہ اختیارات استعمال کرتے ہوئے غصب کرلی۔اب بقیہ تفصیلات عبداللہ کی زبانی سنئیے۔

میری فریاد اراکین جماعت المسلمین کے نام

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ:

امابعد !محمد اشتیاق صاحب نے فسخ نکاح اور اس کے دلائل پمفلٹ جو فسخ نکاح کے دلائل دیے ہیں وہ میرے معاملے میں درست نہیں ہیں کیونکہ میری شادی کو چار سال کاعرصہ ہوچکا ہے اور میں ایک بچے کاباپ بھی ہوں میری شادی ’’سمیرہ‘‘ اور اس کے باپ کی رضامندی سے 27 اپریل 1994کوہوئی اورفسخ نکاح کاسرٹیفکیٹ محمد اشتیاق نے مجھے 26 اپریل 1988 کو دیا

محمد اشتیاق صاحب فسخ نکاح کے سر ٹیفکیٹ میں لکھتے ہیں:’’آپ دونوں کے درمیان مسلسل اختلاف اورعدمِ محبت کی وجہ سے نباہ نہ ہوسکا اورآپ دونوں بھی اس بات کے متمنی تھے کہ شادی کی یہ گاڑی چل نہ سکے گی لہذا آپ دونوں کے حالات دیکھتے ہوئے آج بتاریخ ۲۷ذوالحجہ کو میں نکاح فسخ کرتا ہوں ۔

میرا ’’سمیرہ‘‘ سے نہ تواختلاف تھا اورنہ عدم محبت تھی اگر یہ باتیں ہوتیں تو میں اسے طلاق دے دیتا ۔ہاں!البتہ میرا سمیرہ سے گھریلو معاملہ میں تکرارہوئی تھی جو کہ محمد اشتیاق امیر جماعت اورمحمد بشارت صاحب نے نومبر1997کوسلطان صاحب کے گھر جاکرمیری تمام رنجشیں ختم کرادیں اورمیری صلح کرادی اور اس کے بعد ہم خوش وخرم زندگی گزرانے لگے لیکن کچھ ہی عرصہ کے بعد سلطان صاحب ’’سمیرہ‘‘کومیری عدم موجودگی اور اجازت کے بغیر آ کر لے گئے اور26اپریل1998کوامیر جماعت نے مجھے فسخ نکاح کاسرٹیفیکیٹ تھما دیا اوربعد میں میری بیوی’’ سمیرہ‘‘سے6جون1998کواپنا نکاح رچا لیا جوکہ شرعی لحاظ سے بالکل غلط کیا ہے۔ سلطان صاحب کا ’’سمیرہ بیگم‘‘ کو میرے گھر سے لے جانے کے اورفسخ نکاح کے درمیان ایک ایسا واقعہ پیش آیا جو یہ ثابت کرتا ہے کہ محمد اشتیاق کا’’سمیرہ بیگم‘‘سے نکاح کا پہلے ہی سے پروگرام بن چکا تھا۔

واقعہ یہ ہے کہ جب محمد اشتیاق صاحب اوربشارت صاحب نے ہماری صلح کرادی تو کچھ عرصے کے بعد محمد صالح بروہی صاحب کراچی آئے اوراچانک ان کی طبعیت خراب ہوگئی میں ان کواپنے گھر لے آیا رات تک ان کی طبعیت سنبھلی تو ہم آپس میں بات کرنے لگے محمد صالح بروہی صاحب مجھے کہنے لگے کہ بھائی!میرے لیے کو ئی رشتہ دیکھو میں نے دوسری شادی کرنی ہے پھر خود ہی کہتے ہیں کہ غریب کوکون رشتہ دے گا؟ اب امیر صاحب ہی کو دیکھ لو دوسری شادی کرنے کی کوشش میں ہیں مگر اب تک رشتہ نہیں مل رہا ہے، غریب جو ہیں ۔ ابھی اس بات کودو چاردن ہی گزرے ہوں گے کہ ’’سمیرہ‘‘ نے مجھے سے کہاکہ تم اتنی دیر بعد گھر آتے ہو تم لڑکیوں کے چکر میں ہو میں دراصل رات کوساڑھے دس بجے گھر آتا تھا کیونکہ ہماراجنرل اسٹور تھا آپ لوگوں کو معلوم ہو گا کہ جنرل اسٹورکی ڈیوٹی کتنی ہوتی ہے اور نے میں نے ’’سمیرہ‘‘ سے بھی کہا کہ مجھے جنرل اسٹور سے تین ہزار ماہانہ مل رہے ہیں میں غریب آدمی ہوں دوسری شادی کا سوچ بھی نہیں سکتا امیر بھی بے چارے غریب ہیں اس لیے ان کو بھی دوسری شادی کرنے میں دیر ہو رہی ہے اس بات پر ’’سمیرہ‘‘ نے کہ اگرمیں ہوتی تو امیرصاحب سے شادی کر لیتی میں نے جب اسے گھورکر دیکھا توبات بدلتے ہوئے کہنے لگی ’’اگرکنورای ہوتی توکرلیتی۔‘‘

میں نے عقیدت میں آکر یہ بات محمداشتیاق کوکہہ دی تو انہوں نے فوراً’’ سمیرہ‘‘ سے پوچھوایا یا پھردوسری مرتبہ غصے سے مجھ سے پوچھنے لگے کہ تمہیں کون کہہ رہا تھا کہ’’امیر صاحب کورشتہ نہیں مل رہا۔‘‘ میں نے پوری بات بتا دی اس دوران وہ لاڑکانہ جلسے میں گئے وہاں محمدصالح بروہی سے ان کی ملاقات ہوئی تو ان سے پوچھنے لگے کہ ’’تم نے میرے متعلق ایسی بات کی ؟‘‘ تو وہ کہنے لگے کہ’’ امیرصاحب!مجھے یاد نہیں، شاید کی ہے یانہیں۔‘‘ تو فوراً ان سے کہنے لگے ’’سمیرہ تو کہتی ہے کہ میں امیر صاحب سے شادی کروں گی ۔‘‘ محمد صالح بروہی صاحب نے انہوں نے اس انداز سے بات کی کہ انہیں اندازہ ہوگیا اب امیر صاحب شکیل کی بیوی سے خود شادی کریں گے انہوں نے یہ بات میرے فسخ نکاح سے پہلے ہی عبدالرحمن سکھرکے امیر کہہ دی کہ اب شکیل کی بیوی سے امیر صاحب خود شادی کریں گے۔ توعبدالرحمٰن صاحب نے محمد صالح بروہی سے کہاکہ’’تم امیر صاحب کے بارے میں ایسی بات کررہے ہو؟‘‘تو انہوں نے کہاکہ’’ فی الحال یہ بات ہم دونوں میں رہے اورآپ دیکھیے گاکہ ہوتاکیاہے؟‘‘ اوران کی بات سچ ثابت ہوئی،محمد اشتیاق صاحب نے ایک شادی شدہ عورت سے شادی کرلی اور اس شادی کو امیر کا اجتہاد قرار دیتے پھررہے ہیں۔‘‘

دوسری مرتبہ جب میں محمد اشتیاق کے پاس گیاتوغصے سے مجھ سے پوچھنے لگے کہ’’ تم نے محمد صالح صاحب سے کہاتھا کہ امیر صاحب غریب آدمی ہیں۔‘‘میں نے دوبارہ کہا کہ ’’امیر صاحب! میں نے نہیںکہا۔‘‘صالح محمد صاحب نے کہا تھاپھرغصے سے کہنے لگے :’’تم نے امیر کوسمجھ کیا رکھا ہے ’’امیر‘‘ سے زیادہ ’’امیر‘‘کون ہو سکتا ہے؟‘‘میں نے کہا:’’ امیر صاحب !میں خود دکان سے تین ہزار لیتا ہوں، میں کیسے آپ کوغریب کہوں گا۔‘‘ مگر محمد اشتیاق صاحب نے اس بات کودل میں رکھااوربیہودہ قسم کے الزام جو قابل تحریر نہیں، لگاکرمجھے بے بس کر دیااور فسخ نکاح کا سرٹیفکیٹ مجھے تھماکرکہاکہ ’’تمہارانکاح اب ختم ہوگیا ہے۔‘‘

’’سمیرہ ‘‘کو جب محمدسلطان صاحب آ کر لے گئے تھے تو اس وقت وہ حمل سے تھی کچھ دونوں کے بعد محمد اشتیاق نے مجھ سے کہا کہ سلطان صاحب آئے تھے اورکہہ رہے تھے کہ ’’امیر صاحب!اللہ جانتا ہے ہم نے کچھ نہیں کیا ’’سمیرہ ‘‘کے پچھلے ہفتے طبعیت خراب ہوگئی تھی اور اس کا حمل ضائع ہوگیا ہے۔ مجھے یقین ہے کہ ملی بھگت سے ’’سمیرہ‘‘کا حمل گروایا گیا ہے کیونکہ محمد اشتیاق مزید صبر نہیں کرنا چاہتے تھے، سمیرہ کا تقریباً دومہینے کاحمل تھا۔‘‘

محمد اشتیاق صاحب نے میرا نکاح فسخ کرنے کے چالیسویں دن میری بیوی ’’سمیرہ‘‘ سے شادی رچا لی تو مجھے یقین ہوگیا کہ میرے ساتھ محمد اشتیاق صاحب نے دھوکہ کیا ہے حالانکہ حدیث میں ہے: ’’من غشّ فلیس منا۔‘‘

ترجمہ: ’’جوشخص دھوکہ دے وہ ہم میں سے نہیں۔‘‘

پھر میں نے فسخ نکاح کی تحقیق کی تو مجھے معلوم ہواکہ باھم رضامندی کا نکاح، امیر فسخ کر ہی نہیں سکتا ۔‘‘یہ بات معلوم ہونے کے بعد مجھے بہت دکھ اور افسوس ہوا۔ امیر جماعت کے متعلق جومیرے دل میں احترام تھا وہ مجروح ہوامیرے ذہن میں یہی تھاکہ امیر نے جو بھی فیصلہ کیا ہے شریعت کے مطابق کیا ہے۔

جب یہ بات میری سمجھ میں آئی کہ جماعت کاکوئی بھی فرد مقاطعہ اورکوڑوں کے ڈر کی وجہ سے مجھے امیر جماعت سے انصاف نہیں دلواسکتا لہذا میں نے مجبور ہو کر ’’کورٹ‘‘میں مقدمہ دائر کر دیا لیکن پہلی ہی پیشی سے سے پہلے جنرل سیکرٹری بشارت جاویدصاحب نے مجھے سے خبیب کے گھر ملاقات کی اور مجھے قائل کرنے کی کوشش کی کہ آپ کے اس اقدام سے جماعت بدنام ہوجائے گی لہٰذا آپ صبر کا مظاہرہ کریں اورجماعت کے مفاد میں آپ اپنا کیس واپس لے لیں!اور مجلس شوری کے اراکین اور عہدے داران کے ذریعے بھی مجھ پر بھرپور دبائو ڈال کر اس کیس کوکورٹ سے خارج کروا لیا۔

میں نے جب بشارت کو بتایاکہ میں محمد اشتیاق کے کہنے پر اپنا کاروبارچھوڑکرکراچی شفٹ ہوگیااوریہاں سیٹ ہونے میں مجھے لاکھوں کا نقصان ہوااورمیری بیوی بھی گئی تو انہوں نے اس پر کہا کہ ’’بیوی کے بارے میں صبرکرو مگر مالی مشکلات کا ازالہ ہو سکتا ہے میرے نہ چاہتے ہوئے بھی مجھے اسلم پردیسی کی طر ف سے دولاکھ کاچیک ملا۔لیکن میرے ضمیر نے اس کوقبول نہیں کیااوروہ روپے میرے پاس آج بھی امانت ہیں اورچیک کی فوٹوکاپی جس پر ’’اسلم پردیسی‘‘کے دستخط موجود ہیں وہ میں اس خط میں شائع کر رہا ہوں کیونکہ مجھے انصاف چاہیے روپے نہیں چاہیے اوروہ رقم میں ہروقت ’’اسلم پردیسی‘‘ کو واپس کرنے کو تیار ہوں۔

جس کرب سے میں اس وقت گزر رہا ہوں کہ میرا گھر بربادکردیا گیا اور ایک معصوم بچے سے اس کی ماں کو جدا کر دیاگیا یہ صرف اورصرف محمد اشتیاق نے اپنی نفسانی خواہش کی تکمیل کے لیے یہ ظلم کی انتہاکی ہے ۔ لہذا میں اپنے دکھ کااظہارآپ حضرات سے کرنے پرمجبورہوں کیونکہ ایک عرصے تک میں اپنے غم کوبرداشت کرتا رہا ہوں۔ لیکن اب وہ غم میری قوت برداشت سے باہر ہو چکا ہے جب میں اپنے معصوم بچے کو ماں کے لیے تڑپتا ہوا دیکھتا ہوں تو اس وقت میراسینہ غم کی شدت سے پھٹنے لگتا ہے۔ لہذا میں آپ معزز اراکین جماعت المسلمین کی عدالت میں اپنا یہ مقدمہ پیش کر رہا ہوں اگراب بھی مجھے انصاف نہ ملاتومیںہردروازہ کھٹکٹائوں گاجہاں سے مجھے انصاف ملنے کی توقع ہوگی۔

آپ کامسلم بھائی: شکیل احمد

نوٹ : اس خط کی اشاعت کے بعد میرے کسی عزیز یا مجھے کسی بھی قسم کانقصان ہواتواس کی تمام ترذمہ داری امیرجماعت’’محمد اشتیاق‘‘ اور’’اسلم پردیسی‘‘پر ہوگی ۔

رابطے کے لیے میرااڈریس یہ ہے: شکیل احمد معرفت محمدیعقوب،مکان نمبرC-631/49مکی شاہ کالونی نزد میڈیکل بورڈ آف سکھر (سندھ) فون 071- 242 58

Read 4275 times

DARULIFTA

Visit: DARUL IFTA

Islahun Nisa

Visit: Islahun Nisa

Latest Items

Contact us

Markaz Ahlus Sunnah Wal Jama'h, 87 SB, Lahore Road, Sargodha.

  • Cell: +(92) 
You are here: Home Islamic Articles (Urdu) جماعت المسلمین کاتحقیقی جائزہ

By: Cogent Devs - A Design & Development Company