AhnafMedia

خلیفہ ثالث کے درخشاں پہلو

Rate this item
(4 votes)

خلیفہ ثالث کے درخشاں پہلو

مولانا محمد بلال جھنگوی

اللہ رب العزت نے خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے مقاصد میں ایک مقصد یہ بھی بیان فرمایا کہ آپ نے جہاںانسانیت کو کتاب وسنت کی تعلیم دینی ہے وہیں آپ نے ان کا تزکیہ بھی فرمانا ہے۔تو اس کے لیے خالق نے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک جماعت عطاء فرمائی جو کہ صحبت نبوت سے فیض یاب ہوئے اور پھر خالق نے اس جماعت کو رضی اللہ عنہ کو تمغہ دیا اور آنے والی امت کے لیے ان کو ایک معیار کے طور پر پیش کیا اور فرمایا ’’فان امنوا بمثل ما امنتم بہ فقد اھتدوا‘‘ کہ اگر تم ان کی مثل ایمان لائے تو تم ہدایت پاؤ گے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا’’ اصحابی کالنجوم‘‘ کہ میری یہ جماعت ستاروں کی مانند ہے ۔ اسی مقدس جماعت میں ایک شخصیت حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالی عنہ کی ہے۔

نام و نسب:

آپ کانام گرامی عثمان بن عفان اور کنیت ابو عبد اللہ اور لقب ذوالنورین ہے۔ آپ کے والد ماجد کانام عفان بن ابی العاص اور والدہ کانام ارویٰ بنت کریز ہے۔

قبول اسلام:

حضرت سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ تعالی عنہ کی دعوت پر آپ نے اسلام قبول کرنے کا ارادہ فرما یا۔ ابھی دونوں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جانے کا ارادہ کیا ہی تھا کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم خود تشریف لائے اور فرمایا: عثمان! خدا کی جنت قبول کر لے میں تیری اور تمام خلق کی ہدایت کے لیے بھیجا گیا ہوں ۔حضرت عثمان فرماتے ہیں کہ زبان نبوت کے ان صاف اور سادہ جملوں میں خدا جانے کیا تاثیر بھری تھی کہ میں بے اختیار کلمہ شہادت پڑھنے لگا اور دست مبارک میں ہاتھ دے کر حلقہ بگوش اسلام ہو گیا۔

شادی اور ہجرت حبشہ:

قبول اسلام کے بعد حضرت عثمان کو وہ شرف حاصل ہوا جو کہ ان کی کتاب منقبت میں سب سے نمایاں باب ہے یعنی رحمت عالم نے آپ کو اپنی فرزندی میں قبول فرمایا اور اپنی صاحبزادی حضرت رقیہ کا نکاح آپ سے فرما دیا ۔ اسد الغابہ میں لکھا ہے :

’’رقیہ بنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وامہا خدیجہ بنت خویلد۔۔۔۔۔۔تزوجت عثمان بن عفان وھاجرت معہ الی الارض الحبشۃ‘‘

کہ حضرت رقیہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی صاحبزادی جس کی والدہ کا نام خدیجہ بنت خویلد رضی اللہ عنہاتھا ان کی شادی حضرت عثمان رضی اللہ تعالی عنہ سے ہوئی اور ان دونوں (یعنی حضرت عثمان رضی اللہ عنہ اور حضرت رقیہ رضی اللہ عنہا ) نے حبشہ کی طرف ہجرت فرمائی۔

(اسد الغابہ تذکرہ رقیہ ج5ص456)

مکہ میں اسلام کی دن بدن بڑھتی ہوئی ترقی مشرکین کے غیظ وغضب کی آگ میں زیادہ اضافہ کر رہی تھی۔ حتی کہ رفتہ رفتہ ان کی سخت گیری اور جفاکاری یہاں تک بڑھی کہ وہ ان کی برداشت سے باہر ہو گئی اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اشارہ پرآپ اپنی اہلیہ محترمہ کو ساتھ لے کر ملک حبشہ کی طرف روانہ ہوئے آپ کے متعلق حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :

’’ان عثمان اول من ھاجر باھلہ من ھذہ الامۃ‘‘

یعنی اس امت میں عثمان پہلا شخص ہے جس اپنے اہل عیال کو لے کر ہجرت فرمائی۔

(اصابہ ج8تذکرہ حضرت رقیہ)

ہجرت مدینہ اور خریداری بئر رومہ:

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب مدینہ منورہ کی طرف ہجرت کا ارشاد فرمایا تو آپ پھر اپنی اہلیہ کو ساتھ لے کر مدینہ کی طرف تشریف لے گئے اور حضرت اوس بن ثابت کے مہمان ہوئے اور انہی میں برادری قائم فرمائی۔ دومرتبہ ہجرت کرنے کی وجہ سے آپ کو ’’ذوالہجرتین‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔ مدینہ آنے کے بعد مہاجرین کو پانی کی سخت تکلیف تھی کیونکہ مدینہ میں ایک ہی کنواں تھا میٹھے پانی کا جو کہ ایک یہودی کے پاس تھا اور اس نے اسکو ذریعہ معاش بنا رکھا تھا۔ حضرت عثمان نے اس سے بات چیت فرمائی اوربارہ ہزار درہم نے نصف کنواں خرید کر مسلمانوں کے لیے وقف فرما دیا ۔اس کنواں کے خریدنے میں شرط یہ قرار پائی کہ ایک دن حضرت عثمان کی باری ہو گی اور ایک دن یہودی کی تو جس دن حضرت عثمان کی باری ہوتی لوگ اتنا پانی بھر لیتے کہ دوسرے دن کے لیے بھی کافی ہو جا تا جب یہودی نے دیکھا کہ اب اس سے تو مجھے کچھ نفع نہیں ہو رہا اس نے باقی آدھا بھی حضرت عثمان کے ہاتھوں فروخت کر نے کی بات کی، حضرت عثمان نے آٹھ ہزار درہم میںخرید کر اس کو وقف فرما دیا ۔

غزوہ بدر اور حضرت رقیہ رضی اللہ تعالی عنہا کی رحلت:

رمضان 2ھ میں ایک طرف کفر اسلام کا پہلا معرکہ غزوہ بدر تھا اور دوسری طرف حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی لخت جگر حضرت رقیہ رضی اللہ تعالی عنہاعلیل تھیں تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد پر حضرت عثمان اپنی بیوی حضرت رقیہ رضی اللہ تعالی عنہاکی تیمار داری کی خاطر ان کے پاس رہ گئے ۔ آپ اگرچہ غزوہ بدر میں شریک ہونے سے رہ گئے تھے لیکن اپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مال غنیمت میں آپ کا حصہ مقرر فرمایا ۔نبی اقدس صلی اللہ علیہ وسلم ابھی بدر ہی میں تھے کہ حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ تعالی عنہ فتح کی خوشخبری لے کر مدینے پہنچے تو اس وقت لوگ حضرت رقیہ رضی اللہ تعالی عنہا کو دفن کر کے ان کی قبر مبارک پر مٹی ڈال رہے تھے ۔

(الاصابہ معہ الاستعاب ص294ج4تحت رقیہ بنت کلثوم )

حضرت رقیہ رضی اللہ تعالی عنہا سے حضرت عثمان کا ایک لڑکا عبد اللہ پیدا ہوا اسی سے آپ کی کنیت ابو عبد اللہ ہوئی۔ آپ کا یہ صاحبزادہ تقریبا چھ سال زندہ رہنے کے بعد وفات پا گیا۔

نکاح ثانی:

حضرت رقیہ رضی اللہ تعالی عنہا کی وفات کے بعد آپ بڑے مغموم رہنے لگے اور فرماتے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا قیامت کے دن میری قرابت کے سواء تمام قرابتیں منقطع ہو جائیںگئی افسوس میرا وہ رشتہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے ٹوٹ گیا ۔ کچھ دن افسردگی اور پریشانی کے عالم میں گزارے ایک دفعہ حسرت کے ساتھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے اس کا تذکرہ فرمایا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یوں ارشاد فرمایا :

یا عثمان ھذا جبرائیل علیہ السلام یامرنی عن اللہ عزوجل ان ازوجک اختھا ام کلثوم علی مثل صداقھا وعلی مثل عشرتھا فزوجہ ایاھا۔

(مستدرک حاکم ج4 ص49 تذکرہ ام کلثوم بنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم)

یعنی اے عثمان( رضی اللہ تعالی عنہ) اللہ عزوجل کی طرف سے جبرائیل نے مجھے حکم دیا ہے کہ رقیہ کی بہن ام کلثوم کا میں تجھے نکاح کر دواور مہر وہی ہو گا جو رقیہ کے لیے متعین ہوا تھا اور معاشرتی گزران بھی بطریق سابق رکھنی ہو گی۔ اس کے بعد اپنی پیاری صاحبزادی کا نکاح حضرت عثمان سے فرما دیا ۔

حضرت عثمان رضی اللہ تعالی عنہ اولاد آدم میں وہ واحد شخصیت ہیں کہ جن کے نکاح میں کسی نبی کی دو بیٹیاں آئیں حضرت علامہ جلال الدین سیوطی رحمہ اللہ نے تاریخ الخلفاء میں لکھا ہے ۔

’’قال العلماء ولا یعرف احد تزوج بنتی نبی غیرہ ولذلک سمی ذاالنورین ‘‘

کہ حضرت عثمان کے سوا اولاد آدم میں کوئی ایسا شخص نہیں گزرا کہ جس کے نکاح میں نبی کی دو بیٹیاں آئی ہوں ۔

(تاریخ الخلفاء للسیوطی ص 105)

آپ کا نکاح حضرت ام کلثوم سے ربیع الاول 3ھ میں ہوا اپنی وفات تک حضرت عثمان کے ساتھ آباد رہیں حضرت عثمان رضی اللہ تعالی عنہ سے ان کی کوئی اولاد نہیں اور آپ کی وفات شعبان 9ھ میں ہوئی ۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود ان کا نماز جنازہ پڑھایا حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ ،حضرت فضل بن عباس رضی اللہ تعالی عنہ بن عبد المطلب ،حضرت اسامہ بن زیدرضی اللہ تعالی عنہ بن حارثہ نے قبر میں اتر کر آپ کو آخری آرام گاہ تک پہنچایا ۔

(طبقات ابن سعد ج 8ص 25)

جب حضرت ام کلثوم رضی اللہ تعالی عنہا کا بھی وصال ہو گیا تو آپ کی غمگینی کی انتہاء نہ رہی اس دوران جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کو تسلی دیتے ہوئے فرمایا :

’’حضرت عقبہ بن عامر فرماتے ہیں میں نے حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ سے سنا فرماتے تھے میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے اگر میری چالیس بیٹیاں ہوتیں تو میں یکے بعد دیگرے عثمان کے نکاح میں دیتا حتی کہ ایک بھی نہ رہ جاتی ۔‘‘

(الصواعق المحرقہ لابن حجر مکی ص110)

غزوات میں شرکت :

حضرت عثمان رضی اللہ تعالی عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ غزوات میں بھی شریک رہے شوال 3ھ میں غزوہ احد پیش آیااس کے بعد غزوہ احد 4ھ ، غزوہ ذات الرقاع 5ھ، بعد میں جب غزوہ خندق پیش آیا تو آپ اس میں بھی شریک تھے ۔

سفیر نبوت:

6ھ؁ میں رسول اللہ صل اللہ علیہ وسلم زیارت کعبہ کے لیے تشریف لا ئے ابھی آپ مقام حدیبیہ میں ہی تھے کہ معلوم ہوا کہ مشرکین آپ کی آمادہ پر خاش ہیں تو آپ نے حضرت عثمان رضی اللہ تعالی عنہ کو بطور سفیر کے بھیجا کہ ہم لڑنے نہیں آئے بلکہ زیارت کی غرض سے تشریف لائیں ہیں حضرت عثمان مشرکین کے پاس تشریف لے کئے جب کئی دن گزر گئے صحابہ کرام کو تشویش ہوئی ادھر یہ خبر مشہور ہو گئی کی حضرت عثمان شہید کر دئیے گئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک درخت کے نیچے حضرت عثمان رضی اللہ تعالی عنہ کے خون کا بدلہ لینے کے لیے چودہ سو صحابہ رضوان اللہ علیہم سے بیعت لی اور حضرت عثمان رضی اللہ تعالی عنہ کی طرف سے خود اپنا دست مبار ک دوسرے ہاتھ پر رکھ کر بیت لی۔یہ حضرت عثمان کے تاج فخرکا وہ طرہ امتیاز ہے جو کسی اور کو نصیب نہیں ہوا ۔ 7ھ میں معرکہ خیبر اور 8ھ میں مکہ فتح ہوا اور اسی سال ہوازن کی جنگ ہوئی آپ ان تمام معرکوں میں بھی شریک رہے ۔

سخاوت عثمان غنی رضی اللہ تعالی عنہ:

غزوہ تبوک میں جو کہ 9ھ میں پیش آیا اس میں حضرت عثمان نے ایک تہائی فوج کے تمام اخراجات اپنے ذمہ لیے۔ ابن سعد کی روایت کے مطابق اس غزوہ میں تیس ہزار پیادے اور دس ہزار سوار شامل تھے اس تعداد کے اعتبار سے گو یا کہ حضرت عثمان رضی اللہ تعالی عنہ نے دس ہزار سے زیادہ فوج کے لئے سامان مہیا کیا ۔ اس کے علاوہ حضرت عثمان رضی اللہ تعالی عنہ نے ایک ہزار اونٹ ،ستر گھوڑے اور سامان رسد کے لیے ایک ہزار دینار پیش فرمایا آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس قدر خوش ہوئے کہ اشرفیوں کو دست مبارک سے اچھالتے تھے اور فرماتے تھے

’’ما ضر عثمان ما عمل بعد ھذا الیوم ‘‘

کہ آج کے بعد عثمان کا کوئی کام اسکو نقصان نہیں پہنچائے گا۔

( ترمذی باب مناقب عثمان )

مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی تعمیر میں حضرت عثمان کا ہاتھ بھی سب سے نمایاں رہا۔ جب مسلمانوں کی کثرت کے باعث مسجد نبوی ناکافی ہوگئی تو حضرت عثمان نے ایک قطعہ زمین خرید کر بارگاہ نبوت میں پیش فرمائی۔ اور اپنے دور خلافت میں بھی مزید اس میں وسعت فرمائی۔

خلافت اور فتوحات عثمانی ـ:

خلیفہ بلا فصل حضرت سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ تعالی عنہ کے بعد تقریبا دس برس تک خلافت کی عنان خلیفہ ثانی داماد علی رضی اللہ تعالی عنہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ کے ہاتھ میں رہی۔ آپ کی شہادت کے بعد چار محرم 24ھ دوشنبہ کے دن حضرت عثمان اتفاق عام کے ساتھ مسند نشین خلافت ہوئے اور دنیائے اسلام کی عنان حکومت اپنے ہاتھ میں لی۔حضرت عثمان کے دور خلافت میں افریقہ، اسپین، قبرص، طبرستان کے علاوہ آرمینیہ بھی اسلامی ممالک میں شامل ہوا۔افریقہ میں طرابلس برقہ اور مراکش مفتوح ہوئے اور ایران کی فتح بھی تکمیل کو پہنچی۔ افغانستان خراسان اور ترکستا ن کا ایک حصہ بھی زیر نگیں ہوا۔دوسری سمت آرمینیہ آزربائیجان مفتوح ہوکر اسلامی سرحد کوہ کاف تک پھیل گئی اور ایشیاء کوچک کا وسع علاقہ ملک شام میں داخل ہوا۔ آپ کا زمانہ خلافت بارہ سال کے عرصہ پر محیط ہے ۔

شہادت عثمان غنی رضی اللہ تعالی عنہ:

حضرت امیرالمومنین حضرت عثمان رضی اللہ تعالی عنہ کو باغیوں نے مدینہ طیبہ کے اندر اپنے گھر میں قرآن پڑھتے ہوئے شہید کیاآپ کا گھر مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب تھا باغیوں کا مطالبہ آپ سے خلافت کو چھوڑ دینے کا تھا ۔حالانکہ ان کے تمام اشکالات دور کر دیے تھے۔ اور اس میں حضرت عثمان رضی اللہ تعالی عنہ حق پر تھے اس کی تائید اس حدیث مبارکہ سے ہوتی ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہ فرماتی ہیں : ’’عن عائشہ ان النبی صلی اللہ علیہ وسلم قال یا عثمان انہ لعل اللہ یقمصک قمیصا فان ارادوک علی خلعہ فلا تخلعہ لھم۔ (ترمذی ،ابن ماجہ،مشکوٰۃص562 باب مناقب عثمان) حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا فرماتی ہیں سید الکونین صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا امید ہے کہ اللہ تجھے ایک قمیص (یعنی قمیص خلافت) پہنائیں گے اگر لوگ اس قمیص کو تجھ سے اتارنا چاہیں تو ان کے کہنے پر قمیص نہ اتارنا ۔

حضرت عثمان رضی اللہ تعالی عنہ کو ظالموں نے 35ھ میں 18ذوالحجہ بروز جمعہ کو اپنے مکان میں شہید کر دیا ۔آپ کا جنازہ مشہور صحابی حضرت زبیر بن عوام رضی اللہ تعالی عنہ نے پڑھایا ۔

’’عن قتادۃ قال صلی الزبیر علیٰ عثمان رضی اللہ تعالی عنہ ودفنہ۔‘‘

حضرت قتادہ سے روایت ہے کہ حضرت زبیر بن عوام رضی اللہ تعالی عنہ نے حضرت عثمان رضی اللہ تعالی عنہ کی نماز جنازہ پڑھائی اور ان کی تدفین کی۔

( مسند احمد ج1 ص74تحت مسندات عثمان )

مقام عثمان علی المرتضی کی نظر میں :

حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں:

’’کان عثمان رضی اللہ تعالی عنہ خیرنا واوصلنا للرحم واشدنا حیاء واحسننا طھورا واتقانا للرب عزوجل۔‘‘

عثمان بن عفان رضی اللہ تعالی عنہ ہم میں بہترین شخص تھے ،اور صلہ رحمی کرنے والے تھے، اور زیادہ حیادار اور پاکیزہ تھے ۔ اللہ سے بہت خوف کرنے والے تھے۔

(البدایہ و النہایہ ج 7ص194تحت ذکر عثمان )

ابن عبد البر نے الاستیعاب فی اسماء الاصحاب میں حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کا یہ قول نقل کیا ہے :

’’قال علی رضی اللہ تعالی عنہ من تبرأ من دین عثمان فقد تبرأ من الایمان۔‘‘

یعنی حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا کہ جس شخص نے حضرت عثمان رضی اللہ تعالی عنہ کے دین سے بے زاری اختیار کی یقینا وہ اپنے ایمان واسلام سے بری ہوگیا ۔

(الاستیعاب معہ اصابہ ج 3ص76 تذکرہ حضرت عثمان رضی اللہ تعالی عنہ)

مطلب یہ ہے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے بیان سے معلوم ہوا کہ جو آدمی حضرت عثمان رضی اللہ تعالی کو ایماندار نہیں جانتا وہ خود ایماندار نہیں ہے جو حضرت عثمان سے بیزار ہو گاوہ دین اسلام سے بے زار ہو گا ۔ اللہ رب العزت ہمیں صحابہ کرام کے ساتھ محبت الفت رکھنے کی توفیق عطاء فرمائے اور ان کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطاء فرمائے۔ (آمین بجاہ النبی الکریم )

Read 3473 times

DARULIFTA

Visit: DARUL IFTA

Islahun Nisa

Visit: Islahun Nisa

Latest Items

Contact us

Markaz Ahlus Sunnah Wal Jama'h, 87 SB, Lahore Road, Sargodha.

  • Cell: +(92) 
You are here: Home Islamic Articles (Urdu) خلیفہ ثالث کے درخشاں پہلو

By: Cogent Devs - A Design & Development Company