AhnafMedia

عقیدہ حیات النبی اور شیخ الاسلام سید حسین احمد مدنی رحمۃ اللہ علیہ

Rate this item
(59 votes)

عقیدہ حیات النبیﷺ اور شیخ الاسلام سید حسین احمد مدنی رحمۃ اللہ علیہ

مولانا نور محمد تونسوی

حضرت مولانا سید حسین احمد مدنی رحمۃ اللہ علیہ جو کہ علمی دنیا میں شیخ الاسلام اور شیخ العرب والعجم کے پر عظمت ناموں سے مشہور و معروف ہیں میرے شیخ المشائخ ہیں کیونکہ وہ میرے بہت سے اساتذہ کرام کے استاد ہیں اور بندہ عاجز کی سند حدیث میں دوسرے نمبر پر انہی کا نام گرامی ہے اس مناسبت سے مجھے ان کے عقیدہ لکھنے کا بڑا اشتیاق تھا ۔ آج بحمد اللہ! اللہ تعالی نے اس موضوع پر قلم اٹھانے کی توفیق بخشی۔۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ مجھے اس کی تکمیل کی بھی توفیق بخشے اور اس کارخیر میں خلوص عطا فرمائے اس سلسلہ میں جو رکاوٹیں در پیش ہیں ان سب کو دور فرمائے اور بندہ عاجز کو اس عظیم مقصد میں کامیاب فرمائے تاکہ میں اپنے تمام اکابر کا عقیدہ متعلقہ حیات قبر ضبط تحریر میں لا سکوں ۔ مقصد یہ ہے کہ حضرت مولانا مدنیؒ عقیدہ حیات قبر میں وہی موقف رکھتے ہیں جو دوسرے تمام علمائے اہل السنت والجماعت دیوبند کاہے۔ حضرت مدنی رحمہ اللہ کا عقیدہ معلوم کرنے کے لئے درج ذیل اقتباسات میں غور فرمائیں۔

1- علمائے دیوبند درحقیقت اہل السنت والجماعت کے صحیح جانشین اور سچے ترجمان ہیں اللہ تعالیٰ نے ان حضرات کو دین اسلام کے تمام شعبہ جات کی خدمت ، حفاظت اور تبلیغ کے لئے عصر ہذا میں منتخب فرمایا ہے حتی کہ دین حق کی محنت کا کوئی ایسا میدان نہیں ہے جس میں یہ لوگ محنت کرکے اور مشقت اٹھا کر نمایاں کر دار ادا نہ کر رہے ہوں ۔اللہم تقبل سعیھم و نور قبورھم و کثر سوادھم و احشرنی فی زمرتہم یوم البعث والنشور آمین یا رب العالمین ثم آمین۔ لیکن بد قسمتی سے بریلویہ کے امام احمد رضا خانصاحب نے ہمارے اکابر کی خدمات اور مساعی کو برداشت نہ کرتے ہوئے ان کو بدنام کرنے کی غرض سے ان کووہابی کے نام سے موسوم کر دیا اور سادہ عوام کو یہ باور کرانے کی ناپاک کوشش کی کہ ان کے عقائد و نظریات محمد بن عبد الوہاب نجدی والے ہیں لہذا یہ بھی وہابی ہیں اور پھر اپنے اس غلط اور جھوٹے پروپیگنڈہ میں اس دور کے علمائے حرمین شریفین کو بھی ملوث کرنے کی سر توڑ کوشش کی تاکہ اس کے اس مکروہ پروپیگنڈہ میں قوت آ جائے اور احمد رضا خانصاحب بریلوی نے ایک رسالہ بنام حسام الحرمین تحریر کرکے اپنے اس پروپیگنڈہ کو خوب ہوا دی حالانکہ اکابر علمائے دیوبند تو پکے سچے اور کھرے اہل السنت والجماعت ہیں جبکہ محمد بن عبد الوہاب کے پیروکار بہت سے نظریات میں اہل السنت سے کٹ چکے ہیں چنانچہ شیخ الاسلام والمسلمین حضرت مولانا حسین احمد مدنی رحمہ اللہ ان الزامات کا جواب دیتے ہوئے اور علمائے دیوبند اور فرقہ وہابیہ یعنی محمد بن عبدالوہاب کے پیروکاروں میں فرق واضح کرتے ہوئے لکھتے ہیں ’’ بہرحال اکابر علماء دیوبند کو بھی وراثت نبوی میں سے عظیم الشان حصہ ملنا ضروری تھا۔ چنانچہ مل کر رہا اور ایسا کھلا ہوا جھوٹ ان کے خلاف استعمال کی اگیا کہ جس کی نظیر نہیں ملتی اولاً ان کو اس رسالہ (حسام الحرمین) میں وہابی کہا گیا حالانکہ محمد بن عبد الوہاب اور ان کے فرقہ سے ان حضرات (علمائے دیوبند) کا دور کا بھی تعلق نہ تھا۔ وہ عقائد و اقوال جو طائفہ وہابیہ کے مشہور اور مابہ الامتیاز (بین اہل السنۃ وبینہم) ہیں ان کے خلاف ان حضرات کی تصانیف بھری ہوئی ہیں وہ وفات ظاہری کے بعد انبیاء علیہم السلام کی حیات جسمانی اور بقاء علاقہ بین الروح والجسم کے منکر ہیں اور یہ حضرات صرف اس کے قائل ہی نہیں بلکہ مثبت بھی ہیں اور بڑے زور شور سے اس پر دلائل قائم کرتے ہوئے متعدد رسائل اس بارہ میں تصنیف فرما کر شائع کر چکے ہیں ۔ رسالہ’’ آب حیات‘‘ نہایت مبسوط رسالہ خاص اسی مسئلہ کے لئے لکھا گیا ۔ نیز ’’ہدیتہ الشیعہ، اجوبہ اربعین حصہ دوم اور دیگر رسائل مطبوعہ‘‘ مصنفہ حضرت نانوتوی قدس اللہ سرہ العزیز اس مضمون سے بھرے ہوئے ہیں۔ نقش حیات ص 122

2- شیخ العرب والعجم حضرت مدنی رحمہ اللہ لکھتے ہیں: حافظ ابن تیمیہ رحمہ اللہ تعالیٰ کا مسلک حضور ی مدینہ منورہ کے بارے میں مرجوح بلکہ غلط مسلک ہے مدینہ منورہ کی حاضری محض جناب سرور کائنات علیہ السلام کی زیارت اور آپ کے توسل کی غرض سے ہونی چاہیے آپ کی حیات نہ صرف روحانی ہے جوکہ عام مومنین و شہداء کو حاصل ہے بلکہ جسمانی بھی ہے اور از قبیل حیات دنیوی بلکہ بہت سی وجوہ سے اس سے قوی تر ہے آپﷺ سے توسل نہ صرف وجود ظاہری کے زمانہ میں کیا جاتاتھا بلکہ اس برزخی وجود میں بھی کیا جانا چاہیے محبوب حقیقی تک وصال اور اس کی رضا صرف آپﷺ ہی کے ذریعہ سے اور وسیلہ سے ہو سکتی ہے اسی وجہ سے میرے نزدیک یہی ہے کہ حج سے پہلے مدینہ منورہ جانا چاہیے اور آپ کے توسل نعمت قبولیت حج و عمرہ کے حصول کی کوشش کرنی چاہیے ۔ مسجد کی نیت خواہ تبعاً کر لی جائے مگر اولیٰ یہی ہے کہ صرف جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زیارت کی نیت کی جائے تاکہ لاتعملہ الا زیارتی والی روایت پر عمل ہوجائے ۔ مکتوبات شیخ الاسلام ج1 ص 120

3- شیخ الاسلام حضرت مدنی رحمہ اللہ لکھتے ہیں: ’’ابو داود کی روایت میں رد اللہ علی روحی فرمایا گیا ۔حدیث کے الفاظ یہ ہیں مامن مسلم یسلم علی الا رد اللہ علی روحی حتی اسلم علیہ او کما قال اگر لفظ الی روحی فرمایا گیا ہوتا تو آپ کا شبہ وارد ہو سکتا ہے الی اور علی کے فرق سے آپ نے ذہول فرمایا علی استعلا کے لئے ہے اور الی نہایت طرف کے لئے ہے اس سے تو معلوم ہوتا ہے کہ صلوۃ و سلام سے پہلے روح کا استعلاء نہ تھا نہ یہ کہ وہ جسم اطہر سے بالکل خارج ہو گئی تھی اور اب اس کو جسم اطہر کی طرف لوٹا یا گیا ہے چونکہ آنحضرت علیہ السلام مدارج قرب و معرفت میں ہر وقت ترقی پذیر ہیں اس لئے توجہ الی اللہ کا انہماک اور استغراق دوسری جانب کی توجہ کو کمزور کر دیتا ہے چنانچہ اہل استغراق کی حالتیں روزانہ مشاہد ہوتی ہیں مگر جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو رحمۃ للعالمین بنایا گیا ہے اس لئے بارگاہ الوہیت سے درود بھیجنے والے پر رحمتیں نازل فرمانے کے لئے متعدد مزایا میں ایک مزیت یہ بھی عطا فرمائی گئی کہ خود سرور کائنات علیہ السلام کو استغراق سے منقطع کرکے درود والے کی طرف متوجہ کردیا جاتا ہے اور آپ اس کے لئے متوجہ ہو کر دعا فرماتے ہیں۔ اگر بالفرض وہی معنی لئے جائیں جو کہ آپ سمجھے ہیں اور علی اور الی میں کوئی فرق نہ کیا جائے تب بھی یہ روایت دوام حیات پر دلالت کرتی ہے اس لئے کہ دن رات میں کوئی گھڑی اور کوئی گھنٹہ بلکہ کوئی منٹ اس سے خالی نہیں رہتا کہ آپ پر اندرون نماز اور بیرون نماز درود نہ بھیجا جاتا ہو اس لئے دوام حیات آئے گا۔ مکتوبات شیخ الاسلام ج1 ص 226

4- حضرت شیخ الاسلام مولانا مدنی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں: حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی رحمۃ اللہ علیہ نے رسالہ.. آب حیات صفحہ 231میں اس پر طویل بحث کی ہے جوکہ دقت مضمون اور طول کی وجہ سے اس وقت نقل نہیں کی جاسکتی البتہ اس کے خلاصہ کو نقل کرتا ہوں خلاصہ وہی نقل فرمایا ہے جو کہ مولانا محمد قاسم نانوتوی رحمۃ اللہ علیہ کے مسلک میں نقل ہو چکا ہے ۔ مکتوبات شیخ الاسلام ج1 ص 229

5- حضرت شیخ الاسلام مولانا مدنی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں: ’’ملائکہ سیاحین کی روایت فقط ابن حبان ہی کہ نہیں صحاح میں بھی متعدد طرق سے موجود ہے القول البدیع فی صلوۃ علی الحبیب الشفیع (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) مصنفہ علامہ سخاوی ؒمیں روایت قوی نقل کی گئی ہے ۔ حضرت شاہ ولی اللہ صاحب ؒ فیوض الحرمین میں فرماتے ہیں کہ میں جب بھی مواجہہ شریفہ میں مزار اقدس پر حاضر ہوا روح پر فتوح علیہ السلام کو عظیم الشان تموج میں پایا اور میں نے مشاہدہ کیا کہ زائرین صلوۃ و سلام پڑھنے والوں کی طرف خصوصی طور پر توجہ فرماتے ہیں اور سلام کاجواب دیتے ہیں اور اسی طرح پر ان لوگوں کی طرف خصوصی طور پر توجہ ہوتی ہے جوکہ آپ کی مدح کرتے ہیں اور ان سے خوش ہوتے ہیں میں نے دیکھا کہ روح پر فتوح کی موج نے تمام متصل مکان اور فضا کو بھر رکھا ہے۔ا نتہیٰ مختصراً بالمعنیٰ خلاصہ کلام یہ ہے کہ اگر مزار مقدس کے پاس صلوۃ و سلام عرض کیا جاتا ہے توروحانی سماع ہوتا ہے اور باعث جواب و دعا بنتا ہے اور اگر امکنہ بعیدہ سے صلوۃ و سلام عرض کیا جاتا ہے تو ملائکہ سیاحین جو کہ اس خدمت کے لئے متعین ہیں پہنچاتے ہیں اور جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دعاوں اور جواب سے درود پڑھنے والے کو شرف حاصل ہوتا ہے ۔ مکتوبات شیخ الاسلام ج1 ص230

6- حضرت شیخ الاسلام مولانا مدنی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں: ’’بارگاہ نبوت سے استفادہ کرنا سوئے ادب کیوں ہوگا ؟بارگاہ میں حاضر ہوکر بعد ادائے صیغ صلوۃ و سلام مذکورہ درود شریف کی کثرت بہ صیغہ خطاب زیادہ مفید ہے اس کے علاوہ استفادہ کی عمدہ صورت یہ ہے کہ مراقبہ ذات الہیہ میں مشغول رہیں جو کچھ فیوض پہونچنے والے ہیں وہ پہونچیں گے اس کے قصد یا سوال کی ضرورت نہیں ہے حاضری روضہ مبارک کے وقت میں آنحضرت علیہ السلام کی روح پر فتوح کو وہاں جلوہ افروز ، سننے والے جاننے والے غایت جلال و جمال کے ساتھ تصور کرتے ہوئے شہنشاہ عالم کے دربار کی حاضری خیال کی جاوے اور جملہ طرق ادب کا لحاظ کیا جاوے ۔ مکتوبات شیخ الاسلام ج1 ص 311 -7 نجدی اور اس کے اتباع کا اب تک یہی عقیدہ ہے کہ انبیاء علیہم السلام کی حیات فقط اسی زمانہ تک ہے جب تک وہ دنیا میں تھے بعد ازاں وہ اور دیگر مومنین موت میں برابر ہیں اگر بعد وفات ان کو حیات ہے تو وہی حیات برزخ ہے جو احادامت کو ثابت ہے بعض ان کے حفظ جسم نبی کے قائل ہیں مگر بلا علاقہ روح اور متعدد لوگوں کی زبان سے باالفاظ کریہہ جن کا زبان پر لانا جائز نہیں وہ دربارہ حیات نبوی علیہ السلام سنا جاتا ہے اور انہوں نے اپنے رسائل اور تصانیف میں لکھا ہے اب غور فرمائیے کہ ان اکابر (علمائے دیوبند) کے رسائل اور اعتقادات بالکل اس کے مخالف ہیں حضرت مولانا نانوتوی قدس اللہ سرہ العزیز نے ایک بہت بڑی ضخیم کتاب تحریر فرمائی جو کہ مشہور بین العالم ہے اس میں کس زورو شور سے حیات نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کا اثبات کیا ہے اور مذہب اہل السنت والجماعت اور فضائل نبوت میں کس درجہ اور قوت کے دلائل درج فرمائے ہیں ۔ مولانا گنگوہی قدس اللہ سرہ؛ ہدایۃ الشیعہ اور رسالہ حج وغیرہ میں بھی اس کی تصریح و تائید فرمارہے ہیں چونکہ اس مسئلہ میں خصوصاً ان حضرات کی عبارتیں بہت طویل طویل واقع ہو رہی ہیں اور متعدد رسالے اس مضمون میں تفصیلاً اجمالاً چھپے ہوئے مشہور ہیں ۔اس لئے بخوف طول میں نقل نہیں کرتا ہوں جس کا جی چاہے آب حیات و ہدایۃ الشیعہ و اجوبہ اربعین و لطائف قاسمیہ و زبدۃ المناسک و غیرہا رسائل میں دیکھ لیوے۔ یہ ایک خاص مسئلہ ہے جس میں وہابیہ (محمد بن عبد الوہاب کے پیرو کاروں) نے علمائے حرمین کی مخالفت کی اور بار بار جدال و نزاع کی نوبت آئی اس مسئلہ میں اور مسئلہ آئندہ کی وجہ سے وہاں وہابی سنی سے متمیز ہوتا ہے ۔ الشہاب الثاقب ص 224۔ مطبوعہ دارا لکتاب لاہور۔

Read 7307 times

DARULIFTA

Visit: DARUL IFTA

Islahun Nisa

Visit: Islahun Nisa

Latest Items

Contact us

Markaz Ahlus Sunnah Wal Jama'h, 87 SB, Lahore Road, Sargodha.

  • Cell: +(92) 
You are here: Home Hayat-un-Nabi SAW Articles عقیدہ حیات النبی اور شیخ الاسلام سید حسین احمد مدنی رحمۃ اللہ علیہ

By: Cogent Devs - A Design & Development Company